- فتوی نمبر: 5-60
- تاریخ: 20 مئی 2012
- عنوانات: اہم سوالات > مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
ہمارا سونے کا کاروبار ہے اس میں ہمیں کئی صورتیں درپیش آتی ہیں ان کے بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں۔
پہلی صورت: ہم گاہک کو سونا قسطوں پر دیتے ہیں اور عام ریٹ سے مہنگا کر کے دیتے ہیں جس کی صورت یہ ہے کہ ہم سودے کی ساری بات چیت اسی مجلس میں کر لیتے ہیں۔ لیکن قیمت ادھار رہتی ہے ایک معینہ مدت تک۔ اور گاہک کو کہتے ہیں کہ مثلاً اگر نقداً خریدو تو 10 روپے اور اگر ادھار میں خریدو تو 15 روپے کا دیں گے۔ کیا یہ معاملہ کرنا شرعاً درست ہے؟
دوسری صورت: مندرجہ بالا صورت میں گاہک سے کوئی چیز مثلاً سونے کے زیورات، چیک یا کوئی اور شے جنکی مالیت مذکورہ سونے کی طے شدہ مالیت کےبقدر ہوتی ہے گارنٹی کے طور پر رکھ سکتے ہیں؟
تیسری صورت: فروخت کنندہ اگر معینہ مدت کے بعد بھی رقم کی واپسی نہ کرے تو کیا ایسی صورت میں رہن کو فروخت کر کے اپنی رقم پوری کر سکتے ہیں؟
چوتھی صورت: گاہک سے رقم کی واپسی کے لیے جتنے بھی ماہ کا معاہدہ ہوتا ہے اگر گاہک اس طے شدہ مدت سے پہلے رقم اداکرے تو کیا بائع ایسی صورت میں طے شدہ قیمت سے کم لے سکتا ہے۔ یعنی بائع مشتری کی رعایت کرسکتا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ سونا قسطوں پر دینے کی وجہ سے اصل قیمت پر جو اضافہ لیا جاتا ہے وہ جائز ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ جس نشست میں سودا ہوا ہے اسی نشست میں سونا گاہک کو پکڑا دیا جائے۔ دونوں طرف ادھار ہو یہ جائز نہیں۔
2۔ سونا خریدنے والے سے مذکورہ اشیاء بطور رہن رکھ سکتے ہیں۔
3۔ مدت معاہدہ ختم ہونے کے بعد مشتری ٹال مٹول کرے تو آپ رہن کو بیچ کر اپنا حق وصول کر سکتے ہیں۔ زیادہ نہیں لے سکتے۔ ا س کے لیے فروخت کنندہ یہ شرط کرلے کہ اگر تم نے بروقت ادائیگی نہ کی تو میں اس گروی کو بیچ کر اپنی رقم لے لوں گا۔
4۔ طے شدہ مدت سے پہلے رقم ادا کرنے کی صورت میں آپ کچھ رقم چھوڑنا چاہیں تو چھوڑ سکتے ہیں البتہ سودے کے وقت اس کی شرط نہ کی ہو۔
و يزاد في الثمن لأجله إذا ذكر الأجل بمقابلة زيادة الثمن. (رد المحتار: 5/ 142 )
باع عبداً على أن يرهن المشتری بالثمن شيئاً بعينه أو يعطي كفيلاً كذلك بعينه صح. (رد المحتار: 6/ 497) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved