• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ادھار لی ہوئی رقم کے مالک کے معلوم نہ ہونے کی صورت میں رقم کا حکم

استفتاء

علماء کرام کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا بھائی چند سالوں سے سعودیہ میں کام کرتا تھا اور وہاں کسی ایسے آدمی سے دوستی ہو گئی جو وہاں کا رہائشی نہیں تھا بلکہ کمانے کی غرض سے آیا تھا (یہ معلوم نہیں کہ وہ کس ملک کا تھا) کچھ عرصہ  کے بعد میرے بھائی نے اس آدمی سے کچھ پیسے لیے اور کہا کہ کچھ دنوں بعد دے دوں گا پھر اس کے بعد میرا بھائی تقریباً 2 سال تک سعودیہ میں رہا اور اس عرصہ میں میرا بھائی اس شخص کو ڈھونڈتا رہا لیکن ان دو سالوں میں میرے بھائی کی اس سے ملاقات نہیں ہوئی اور وہاں جب یہ ہمارا معاملہ  لوگوں کو معلوم ہوا کہ میرے بھائی نے اس سے پیسے لیے تو اس وقت وہاں کے لوگوں نے کہا کہ اس سے پیسے کیوں لیے وہ تو غیر مسلم تھا لیکن میرے بھائی کا کہنا ہے کہ اس بات کا مجھے علم نہیں تھا کہ وہ غیر مسلم ہے اب چونکہ میں پاکستان آگیا ہوں اور واپس جانے کا ارادہ بھی نہیں اور اس آدمی کے کچھ پیسے میرے پاس رہ گئے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس آدمی کا ملنا بہت مشکل ہے۔ اب میرے بھائی پوچھ رہے ہیں کہ وہ پیسے جو میرے پاس رہ گئے ہیں ان کا میں کیا کروں؟ کیا خود استعمال کرتا رہوں یا کسی کو صدقہ کروں؟ برائے مہربانی جواب دے کر مشکور فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اول تو اس شخص کو تلاش کرنے کی ممکنہ کوشش کی جائے اور اس کو اس کی رقم واپس کی جائے۔ مالک کے ملنے سے  مایوسی کی صورت میں وہ رقم صدقہ کی جائے خود استعمال نہ کریں۔

فتاویٰ شامی (6/434) میں ہے:

(عليه ديون ومظالم جهل أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله) هذا مذهبنا لا نعلم خلاف، جهل أربابها، يشمل ورثتهم، فلو علمهم لزمه الدفعه إليهم لأن الدين صار حقهم، وفي الفصول العلاميه: من له على آخر دين فطلبه ولم يعطه فمات رب الدين لم تبق له خصومة في الآخرة عند أكثر المشائخ لأنها بسبب الدين وقد انتقل إلى الورثة، والمختار أن الخصومة في الظلم بالمنع للميت، قال محمد بن الفضل: من تناول مال غيره بغير إذنه ثم رد البدل على وارثه بعد موته برئ عن الدين وبقي حق الميت لظلمه إياه، ولا يبرأ عنه إلا بالتوبة ولاستغفار والدعاء له. قوله: (فعليه التصدق بقدرها من ماله) أي الخالص به أو المتحصل من المظالم وهذا إن كان له مال، وفي الفصول العلاميه: لو لم يقدر على الأداء لفقره أو لنسيانه أو لعدم قدرته قال الشداد والناطفي رحمهما الله لا يؤخذ به في الآخر إذا كان الدين ثمن متاع أو قرضاً.

………………………………………………………… فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved