• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ادھارپرزیادہ قیمت لینے کی چند صورتیں

استفتاء

گزارش ہے کہ کچھ لوگ مندرجہ ذیل صورتوں میں کاروبار کررہے ہیں وہ مجھے بھی اس کا روبار میں شریک کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن مجھے آخری تینوں صورتیں  سود کی شکل میں حرام معلوم ہوتی ہیں۔برائے مہربانی وضاحت کریں کہ یہ حلال ہیں یانہیں؟

1۔گندم،چاول،یا کپاس جس کی قیمت خرید/980000 روپے ہے وہ فوری کیش/1000000روپے میں فروخت ہوجاتاہے یہ تو جائز معلوم ہوتاہے یہ کاروبارہے؟

2۔لیکن اگر گاہک کی مجبوری ہے اس کے پاس فروی رقم نہیں ہے۔وہ دوماہ کے بعد روپے/1060000روپے رقم ادا کرنے کو رضامند ہے یا دےسکتاہے کیا یہ جائز ہے یا نہیں۔

3۔وہ قیمت کے ماہ بعد دینے کا ارادہ رکھتا ہے اس کے لیے وہ /1120000روپے چھ ماہ کے بعد دینے پر رضامند ہے جبکہ اس چیز کی اصل قیمت/980000روپے  ہے کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟

4۔ا س کے علاوہ ایک شخص اس چیز کاخریدار ہے ۔ لیکن نقد رقم اس کے پاس نہیں ہے۔ وہ اس چیز کی قیمت ایک سال کے اندر قسطوں میں دینا چاہتاہے۔ جس کی ماہانہ قسط/100000روپے ہے۔ اور کل 1200000روپے ایک سال میں اداکرےگا۔ چیز ایک ہی ہے۔ پے منٹ مختلف صورتوں میں ہورہی ہے ۔ ان سب میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا ۔ماسوا اس کے کہ 980000روپے کی چیز نقد لیکن دوسرے گاہگ کو نقد1000000روپے میں فروخت کرکے/20000روپے منافع لے لیں۔ ادھار لینے والا مجبور ہوتاہے اس مجبوری کی بنا پر زیادہ قیمت ادا کرتا ہے ادھار کا لفظ آتے ہیں۔ قیمت میں اضافہ ہوجاتاہے جو بظاہر ناجائز معلوم ہوتاہے۔ مہربانی فرماکر وضاحت کردیں مشکور ہوں گا۔ یہ نہ ہو کہ یہ کاروبار کرکے اللہ کے ہاں تمام نماز،روزے،حج ،زکوٰة وغیرہ منہا ہوجائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو نیک کام کااجر دے ۔آمین

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سب صورتیں جائز ہیں۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اسی مجلس میں رقم کی مقداراور مدت کی تعیین کریں۔

وجہ یہ ہے کہ نقد قیمت اگرہزارروپے ہو اور دومہینے کے ادھار پر اس شے کی قیمت 1100 لگائی جائے تواگرچہ مدت کو پیش نظر رکھاگیا ہے ۔ لیکن شے کی قیمت ہی 1100 رکھی ہے۔ یہ نہیں  کہ شے کی قیمت 1000روپے ہے اور 100روپے دوماہ کی مدت کا عوض ہے۔ اسی لئے پہلے طے کرلیں کہ نقد لوگے یا ادھار؟ اگرادھار کے ریٹ لگائیں اور نقد کہے تونقد کے ریٹ لگائیں۔

اشتراه بألف نسيئة وباع بربح مائة بلا بيان(خير المشتري)أی بين رده وأخذه بألف ومائة حالةً، لأن للأجل شبها بالمبيع،ألا تری أنه يزاد فی الثمن لأجله،والشبهة ملحقة بالحقيقة. شامی7/ 357 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved