• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ادھار سودے میں قیمت زائد طے کرنا

استفتاء

ایک مسئلہ دریافت کرنا تھا کہ میرے پاس ضروریات زندگی کی کچھ چیزیں ہیں مثلا جوسر مشین اور استری وغیرہ، میں لوگوں کو یہ سہولت  دیتاہوں کہ یہ لوگ کچھ رقم ایڈوانس دے  کر بقایا سال  بعد دے دیں اور اس صورت میں، میں ان  چیزوں کی بازار میں جو نقد کی قیمت  ہے اس سے کچھ زیادہ لیتا ہوں مثلا بازار میں ایک چیز 1500 روپے کی ہو تو میں ادھار کی صورت میں 2500 کی بیچتا ہوں تو کیا میرے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت جائز ہےالبتہ درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

1)سودا کرتے وقت چیز کی کل قیمت اور ادھار کی مدت طے ہوجائے۔

2) قسط کی ادائیگی  میں تاخیر کی صورت میں جرمانہ کی شرط نہ ہو۔

3) مقررہ مدت سے پہلے ادائیگی کی صورت میں ڈسکاونٹ کی شرط نہ ہو ۔

توجیہ: ادھار کی صورت میں نقد کی بنسبت زیادہ قیمت لینا شریعت کی نظر میں جائز ہے یہ سود نہیں تاہم ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے جرمانہ لگانا  سود ہے اسی طرح مدت سے پہلے ادائیگی کی صورت میں ڈسکاؤنٹ کی شرط بھی سود ہے جسے فقہ کی زبان میں ضع و تعجل  کہا جاتا ہے ۔

نوٹ: مذکورہ بالا شرائط وہ ہیں  جن کا عام طور سے قسطوں کے کاروبار میں خیال نہیں رکھا جاتا، ان شرائط کو ذکر کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ قسطوں کے کاروبار میں اور کوئی خرابی نہیں اس لیے جس کسی نے قسطوں کا کاروبار کرنا ہو یا جس نے قسطوں پر کوئی چیز خریدنی ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنا شرائط نامہ کسی معتبر دارالافتاء و دکھالے۔

المبسوط (8/13)میں ہے: 

وإذا عقدالعقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يقاطعه على ثمن معلوم ولنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد.

فتاوٰی شامی(7/413) میں ہے:

کل قرض جر نفعا حرام أي إذا کان مشروطاً‘

الدر المختار(12/318)میں ہے:

ولا ‌يصح ( ای الصلح ناقل )عن ‌دراهم ‌على دنانير مؤجلة) لعدم الجنس فكان صرفا فلم يجز نسيئة (أو عن ألف مؤجل على نصفه حالا) إلا في صلح المولىمكاتبه فيجوز.زيلعي (أو عن ألف سود على نصفه بيضا) والاصل أن الاحسان إن وجد من الدائن فإسقاط، وإن منهما فمعاوضة

تکملہ حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

قوله (او عن الف موجل على نصفه حالا) لان المعجل غير مستحق بعقد المداينة اذا المستحق به هو الموجل والمعجل خير منه فقد وقع الصلح على ما لم يكن مستحقا بعقد المداينة فصار معاوضة والاجل كان حق المديون وقد تركه بازاء ما حطه عنه من الدين فكان اعتياضا عن الاجل وهو حرام الا يرى ان ربا النسيئة حرم لشبهة المال بالاجل فلان يحرم حقيقة اولى انتهى . درر.

قال ولو كانت له ألف مؤجلة فصالحه على خمسمائة حالة لم يجز لأن المعجل خير من المؤجل وهو غير مستحق بالعقد فيكون بإزاء ما حطه عنه وذلك اعتياض عن الأجل وهو حرام).

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved