- فتوی نمبر: 29-335
- تاریخ: 02 ستمبر 2023
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
1۔علم سے قرآن و حدیث اور شرعی علوم جبکہ فن سے تمام دنیاوی علوم کومراد لیا جاتا ہے ۔فن سکھانے یا کسی کو اس میں ماہر بنانے کے لیے اجرت لینا صحیح ہے ، تو کیا علم یعنی دینی علوم کو سیکھنے سکھانے کے لیے اجرت لیناجائزہے؟ اس کا حکم کیا ہے؟ کس نیت کے ساتھ اجرت لی جا سکتی ہے؟
نیز اسی مسئلہ کے بارے میں یہ بات بھی اہل علم سے سنی گئی ہے کہ وقت کی اجرت لینا جائز ہے لیکن درحقیقت اس وقت کے اندر اسی حقیقی مقصود (علم دین کا سیکھنا ) کی اجرت دی جاتی ہے۔ کسی جگہ صرف اپنا وقت دیں اور فارغ بیٹھ کر وقت گزاریں تو کوئی اجرت کیونکر دے گا تو لا محالہ یہ وقت کی اجرت نہیں بلکہ اسی پڑھانے یا سکھانے کی اجرت ہوئی تو اس میں کیا نیت ہونی چاہیے؟
2۔کیا قرآن و حدیث یا دینی علوم کو پڑھانے کی اجرت لینا جائز بھی ہے یا نہیں ؟ اسی طرح کیا اخراجات کے نام پر ان طلباء سے جو علوم دینیہ سیکھنا چاہتے ہوں تو فیس لینا جائز ہے؟ جس طرح سکول و کالجز میں طلباء سے فیس لی جاتی ہے۔
آخر میں اس حدیث کی تفصیل و تشریح بیان فرمادیں :
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا!
جو شخص قرآن پڑھے تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کا مال کھائے تو قیامت کے دن وہ ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کا چہرہ محض ہڈی ہوگا جس پر گوشت نہ ہوگا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ قرآن پاک یا دینی علوم سکھانے کی اجرت لینا ہے خواہ اسے وقت کی اجرت کہیں یا تعلیم کی اجرت کہیں اسی طرح نیت خواہ کچھ بھی ہو اس سے اجرت کے جائز ہونے پر کچھ فرق نہیں پڑتا۔
2۔ امور دینیہ سکھانے کےواسطےطلباء سے فیس لینا جائز ہے، باقی رہی سوال کے آخر میں ذکر کردہ حدیث کی تشریح و تفصیل؟ تو اس سے متعلق چند باتیں ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں :
1۔ یہ حدیث تعلیم سے متعلق نہیں بلکہ قراءت (تلاوت) قرآن سے متعلق ہے اور تلاوت پر اجرت لینا موجودہ زمانے میں بھی جائز نہیں۔
2۔ یہ اس زمانے سے متعلق ہے جب دینی کاموں میں مشغول ہونے والوں کو بیت المال سے وظیفے دیئے جاتے تھے۔
البحر الرائق (8/ 22)میں ہے:
قال – رحمه الله – (والفتوى اليوم على جواز الاستئجار لتعليم القرآن) ، وهذا مذهب المتأخرين من مشايخ بلخ استحسنوا ذلك وقالوا بنى أصحابنا المتقدمون الجواب على ما شاهدوا من قلة الحفاظ ورغبة الناس فيهم؛ ولأن الحفاظ والمعلمين كان لهم عطايا في بيت المال وافتقادات من المتعلمين في مجازات التعليم من غير شرط، وهذا الزمان قل ذلك واشتغل الحفاظ بمعائشهم فلو لم يفتح لهم باب التعليم بالأجر لذهب القرآن فأفتوا بالجواز، والأحكام تختلف باختلاف الزمان
حاشیہ ابن عابدین ( 2/74 ) میں ہے:
رجل علم القرآن فقام به يطلب وجه الله وما عنده. ورجل ينادي في كل يوم وليلة خمس صلوات يطلب وجه الله وما عنده. ومملوك لم يمنعه رق الدنيا عن طاعة ربه» نعم قد يقال: إن كان قصده وجه الله تعالى لكنه بمراعاته للأوقات والاشتغال به يقل اكتسابه عما يكفيه لنفسه وعياله، فيأخذ الأجرة لئلا يمنعه الاكتساب عن إقامة هذه الوظيفة الشريفة، ولولا ذلك لم يأخذ أجرا فله الثواب المذكور، بل يكون جمع بين عبادتين: وهما الأذان، والسعي على العيال، وإنما الأعمال بالنيات
الہدایہ(3/238) میں ہے:
قال: "ولا الاستئجار على الأذان والحج، وكذا الإمامة وتعليم القرآن والفقه” والأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليه عندنا. وعند الشافعي رحمه الله يصح في كل ما لا يتعين على الأجير؛ لأنه استئجار على عمل معلوم غير متعين عليه فيجوز. ولنا قوله عليه الصلاة والسلام: "اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به” وفي آخر ما عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عثمان بن أبي العاص: "وإن اتخذت مؤذنا فلا تأخذ على الأذان أجرا” ولأن القربة متى حصلت وقعت عن العامل ولهذا تعتبر أهليته فلا يجوز له أخذ الأجر من غيره كما في الصوم والصلاة، ولأن التعليم مما لا يقدر المعلم عليه إلا بمعنى من قبل المتعلم فيكون ملتزما ما لا يقدر على تسليمه فلا يصح. وبعض مشايخنا استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم؛ لأنه ظهر التواني في الأمور الدينية. ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن وعليه الفتوى
تبیین الحقائق( 5/36) میں ہے:
والفتوى اليوم على جواز الاستئجار لتعليم القرآن) وهو مذهب المتأخرين من مشايخ بلخ
کفایت المفتی (2/36) میں ہے:
سوال: درجہ قرآن یا حفظ و ناظرہ ،اردو فارسی یا عربی ان میں سے کسی درجہ کے لڑکوں پر ماہواری فیس شرعا مقرر کرنا درست ہے یا نہیں؟
جواب: ماہواری فیس لی جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved