• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اجرت کے منافع کے لنک کرنا

استفتاء

مسئلہ: میں ایک ادارہ میں کام کرنا چاہتا ہوں بغیر کسی سرمایہ کاری کے۔ ادارہ کا مالک ان شرائط پر مجھے رکھنا چاہتا ہے:

1۔ ایک مقررہ رقم بطور ماہانہ۔

2۔ فیکٹری میں ہونے والے کام کی کسی بھی پرچیز آرڈر رقم کا آدھا فیصد (0.5 فیصد) مزید مجھے دیا جائے گا۔ چاہے اس میں میرا کردار نہ ہو۔

3۔ اگر میں اپنی کوشش سے کوئی آرڈر لے کر آؤں تو پھر مزید رقم اس آرڈر پر آرڈر رقم کا دو فیصد مجھے ملے گی۔

سوال: ان شرائط کی شرعی حیثیت کےمطابق کیا یہ طریقہ کار جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت جائز ہے۔

قال في التاتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل وما تواضعوا عليه إن في كل عشرة دنانير كذا فكذلك حرام عليهم، وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار فقال: أرجوا أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام. (در مختار: 6/62، بحواله إجاره: زبير أشرف)

فی الواقع ان عبارات کا مقتضاء (حرمت اجرت دلال ہے) یہی ہے  لیکن بوجہ حاجت عامہ روایت بزازیہ و روایت حاوی پر فتویٰ دینا ارفق بالناس ہے۔  هذا ما رأيت والله أعلم وأدرى. (امداد الفتاویٰ: 3/366)۔۔۔۔  ([1])فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

([1] ) اشکال از دار الافتاء

اجیر کی اجرت کو دکان پر ہونے والے کام کے منافع کے فیصد کی شکل میں متعین کرنے کا حکم مسائل بہشتی زیور اور ایک آدھ اور کتاب میں ملا ہے لیکن سیل کے ساتھ منسلک کرنے کا صراحتاً نہیں ملا۔ اگرچہ دونوں صورتوں میں نتیجتاً زیادہ فرق نہیں۔

زیر نظر صورت میں پرچیز آرڈر میں سائل (ملازم) کا کردار بھی نہیں کہ اسے کمیشن بنایا جا سکے۔ اس لیے  حضرت والا اپنی رائے سے آگاہ فرما دیں۔

از دار الافتاء

جواب از ڈاکٹر صاحب

میری رائے بھی مذکور کے موافق ہے کہ جائز نہیں ہے۔ کیونکہ منفعت والی صورت تو مضاربت کے مشابہ ہو جائے گی ۔ یہ تو وہ نہیں ہے۔

عرض مکرر:

مذکورہ صورت یعنی اجرت کو سیل کے ساتھ منسلک کرنے کے بارے میں یہ خیال ہو رہا تھا کہ اسے بجائے اس کے کہ مضاربت کی مشابہت میں لایا جائے اس کو اپنی اصل پر ہی یعنی اجارے کے اندر رکھ کر دیکھا جائے کہ یہ اجارہ ہی ہے البتہ یہاں اجرت مجہول ہے اور اس جہالت کا تحمل بوجہ تعامل و عرف و عدم الافضاء الی المنازعۃ کر لیا جائے جیسا کہ دلال کی اجرت میں کیا گیا ہے۔

قال في التاتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل وما تواضعوا عليه إن في كل عشرة دنانير كذا فكذلك حرام عليهم، وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار فقال: أرجوا أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام. (در مختار: 6/62، بحواله إجاره: زبير أشرف)

فی الواقع ان عبارات کا مقتضاء (حرمت اجرت دلال ہے) یہی ہے  لیکن بوجہ حاجت عامہ روایت بزازیہ و روایت حاوی پر فتویٰ دینا ارفق بالناس ہے۔  هذا ما رأيت والله أعلم وأدرى. (امداد الفتاویٰ: 3/366)

سوال از حضرت ڈاکٹر صاحب

یہ کیسے کہا جائے کہ کل قیمت فروخت کے ایک جزء کو اجرت بنانے پر تعامل موجود ہے؟

جواب از دار الافتاء

مولوی اسامہ عثمان (شاہ عالمی) اور عاطف کرامت صاحب سے بات ہوئی ہے یہ حضرات کہتے ہیں کہ اس صورت کا یعنی راس المال کے جزء (مشاع) کو اجرت بنانے کا تعامل موجود ہے۔ عاطف صاحب کے بقول انہوں نے اپنی دکان پر پہلے ملازمین کو ایسے ہی رکھا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہائیر مینجمنٹ (منیجر وغیرہ) کی تنخواہ کو تو بسا اوقات پرافٹ سے لنک کرتے ہیں ورنہ عام ملازمین خاص طور سے سیل مین کی اجرت کو سیل ہی سے لنک کیا جاتا ہے۔

حتمی جواب از ڈاکٹر صاحب:

جائز ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved