• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اجرت میں تنخواہ اور گھریلو اخراجات طے کرنا

استفتاء

*** نے صرف سرمایہ لگایا ہوا ہے، دوست محمد جو کہ اس کا دوست ہے وہ سرمائے پر کام کرتا ہے، دوست محمد نے آگے یہاں لاہور میں *** کی اجازت اور اعتماد کے ساتھ ہمارے ساتھ معاملہ کیا ہوا ہے۔

سرمائے سے چائنہ وغیرہ سے مال منگوایا جاتا ہے یہاں لاہور میں ایک بڑا سیٹ اپ ہے جس کی تمام تر ذمہ داری اور کام ہم تین بھائی (سائل اور اس کے دو بھائی) سر انجام دیتے ہیں۔ اس کاروبار میں نفع کی بابت یہ طے ہے کہ کل جتنا بھی نفع ہو گا اس کا 75 فیصد *** کو ملے گا اور 25 فیصد دوست محمد کو، پھر اس پچیس 25 فیصد میں سے 25 فیصد ہمیں ملے گا۔ یعنی گویا کل نفع کا 5 فیصد ہمیں ملے گا۔

پہلے دوست محمد نے مجھے تنخواہ پر ملازم رکھا ہوا تھا مگر پھر میں نے اسے کہا کہ تنخواہ پر میرے کام مشکل ہے اس نے پھر اس طرح کی ترتیب بنائی کہ

1۔ دکان کے بل، کرایہ اور ملازموں کی تنخواہیں بھی اخراجات میں شمار ہوں گی۔

2۔ ہمارے تینوں بھائیوں کے گھر کے کچن، بل، سکول کی فیس اور گھر کا رینٹ بھی اخراجات میں شمار ہو گا۔ چاہے جتنا بھی ہو اور یہ کم زیادہ بھی ہوتے رہتے ہیں۔

3۔ میرے ساتھ کام کرنے والے دونوں بھائی کو ایک فکس تنخواہ ملے گی جو کہ کاروبار کے اخراجات میں شمار ہوں گے۔ جبکہ مجھے منافع ملے گا۔

اس کے علاوہ دوست محمد نے *** کے علم اور اخراجات کے ساتھ ہمیں یہ بھی اختیار دے رکھا ہے کہ کاروبار سے کسی کار خیر میں چندہ دینا چاہو تو دے سکتے ہو، مہمان آجائیں تو ان کا خاطر خواہ اکرام کر سکتے ہو۔ اس طرح کوئی واقف وغیرہ ہو تو اسے سامان (بیگ) فری بھی دے سکتے ہو۔

سوال مذکورہ معاملے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ہمارے دوست محمد صاحب وغیرہ تو مطمئن ہیں مگر مجھے خود خلجان ہے کہ ہم کہیں ناجائز معاملہ نہ کر رہے ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ذکر کردہ صورت میں *** رب المال ہے اور دوست محمد اس کا مضارب ہے۔ ان دونوں کے باہمی تعلق کی تفصیلات

سے سائل کو غرض نہیں اس لیے اسے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ سائل اور اس کے دو بھائیوں کا دوست محمد سے تعلق اجارے کا ہے جس میں دوست محمد مستاجر ہے اور تینوں بھائی اس کے اجیر ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ دو بھائیوں کی ماہانہ تنخواہیں طے ہیں جبکہ بنیامین کو فیصدی تناسب سے اجرت ملتی ہے جو کہ فی نفسہ جائز ہے قیاساً علی المضاربۃ۔ البتہ تینوں بھائیوں کو ملنے والے گھریلو اخراجات کی مد میں چونکہ کچھ متعین نہیں ہے اس لیے اجرت کا یہ حصہ مجہول ہے جو اجارے کو فاسد کر دے گا۔

معاملے کو درست کرنے کی صورت یہ ہے کہ گھریلو اخراجات کی مد میں جو کچھ لیا جاتا ہے اس کی چاہے اندازے سے ہو کوئی متعین مقدار طے کی جائے تاکہ اجرت کی جہالت نہ رہے۔

یہی حال اپنے کسی جاننے والے کو محض اپنی شناسائی کی بنیاد  پر مفت سامان فراہم کرنے اور اس کا اکرام کرنے کا ہے یہ اجرت کا حصہ ہے اور مجہول ہے، اس مد میں بھی تعیین ہونی ضروری ہے۔

باقی رہا چندہ وغیرہ تو اس میں سائل کی حیثیت رب المال (یا مضارب اول) کے وکیل اور نائب کی ہے۔ اس کی اس حد تک اجازت ہے جتنی دلالتاً معلوم ہو۔ فتاوی عالمگیریہ (4/291) میں ہے:

الأصل أن ما يفعله المضارب ثلاثة أنواع يملكه بمطلق المضاربة وهو ما يكون من باب المضاربة وتوابعها ومن جملته التوكيل بالبيع والشراء للحاجة والرهن والارتهان والإجارة والاستئجار والإيداع والإبضاع.

وفيه أيضاً (4/411):

وأما شرائط الصحة: ومنها أن تكون الأجرة معلومة.

البحر الرائق (8/37) میں ہے:

قال في المحيط: كل جهالة تفسد البيع تفسد الإجارة، لأن الجهالة المتمكنة في البدل والمبدل تفضي إلى المنازعة، وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين يفضي إلى المنازعة فيفسد الإجارة.

شرح المجلہ (2/538، مادہ: 460)

كل ما أفسد البيع مما مر يفسد الإجارة كجهالة مأجور، أو أجرة، أو مدة، أو عمل

………………………………………….. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved