- فتوی نمبر: 8-167
- تاریخ: 01 مارچ 2016
- عنوانات: عبادات > حج و عمرہ کا بیان
استفتاء
اگر کسی عورت نے مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے مسجد عائشہ میں جا کر عمرہ کی نیت سے احرام باندھا، پھر اس کو حیض آ گیا۔ اب اس کی پاکستان واپسی ہے، تو اب اس عورت کو دم رفض ادا کردینے کے بعد عمرہ کی قضا کرنی پڑے گی یا نہیں؟ یا حیض ہی کی حالت میں عمرہ کرے اور دم دے؟ اس کے لیے افضل کیا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں ایسی عورت کے لیے سب سے بہتر یہ ہے کہ واپسی کی تاریخ بڑھوانے کی کوشش کرے۔ اگر تاریخ بڑھ جائے تو پاک ہونے کا انتظار کرے، اور عمرہ ادا کرے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو عمرہ کا احرام ختم کرنے کی نیت سے اپنے کل سر یا کم از کم چوتھائی سر کے بال پورے کے بقدر کاٹ لے، اور احرام ختم کر دے۔ احرام ختم کرنے کا دم دے اور بعد میں عمرہ کی قضاء بھی کرے۔ اور اگر کسی کی ایسی صورت حال ہو کہ واپسی کے بعد دوبارہ جانے کی استطاعت نہ ہو تو وہ عورت اگر اسی حالت میں عمرہ کرلے، اور حالت حیض میں طواف کرنے کی وجہ سے ایک بکری دم دیدے، اور توبہ استغفار بھی کرے تو اس کا عمرہ ہو جائے گا، اور یہ حلال بھی ہو جائے گی۔
نیز عمدة الفقہ اور معلم الحجاج میں بھی ایسے ہی ہے۔ نیز امداد الاحکام کے حاشیہ میں ہے:
’’حج کا وقت ہندوستان میں شوال کے مہینے سے شروع ہوتا ہے فإنه وقت خروج الحاج منه‘‘. (حاشیہ امداد الاحکام: ص:157، از ظفر احمد عثمانی صاحبؒ )
ہمارے ہاں درخواستیں جمع کرانے کا وقت اور ہے، اور روانگی کا یعنی پہلی فلائٹ جانے کا وقت اور ہے۔ لہذا یہ قابل غور ہے کہ درخواست جمع کرانے کے وقت کو حج کا وقت شمار کیا جائے یا روانگی )یعنی علاقے کی پہلی فلائٹ( کے وقت کو حج کا وقت شمار کیا جائے؟
جواب از مفتی صاحب
مسئلہ چونکہ حج کے خرچہ سے متعلق ہے اور ہمارے ملک میں حج کا خرچہ پہلے لیا جاتا ہے تو اعتبار اس وقت کا ہو گا۔ اگر کسی کے پاس یکم شوال کے دن روپیہ آئے تو عام حالت کے اعتبار سے وہ اس سال حج پر نہیں جا سکتا۔
پہلے لوگ جب حج پر جاتے تھے تو اپنا خرچہ اپنے ساتھ لے کر جاتے تھے، پہلے سے ادائیگی کرنی نہ ہوتی تھی۔
عن عائشة قالت خرجنا لا نرى إلا الحج فلما كنا بسرف حضت فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا أبكي قال ما لك أنفست قلت نعم قال إن هذا أمر كتبه الله على بنات آدم فاقضي ما يقضي الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت حتی تطهري. (بخاري و مسلم)
عن ابن عباس : ( رفع الحديث إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم ) أن النفساء والحائض تغتسل وتحرم وتقضي المناسك كلها غير أن لا تطوف بالبيت حتى تطهر. (سنن الترمذي: 1/ 311، المصباح)
والأصل فيه حديث عائشة رضي الله عنها فإن النبي صلى الله عليه وسلم { دخل عليها بسرف ، وهي تبكي قال ما يبكيك لعلك نفست فقالت نعم فقال هذا شيء كتبه الله تعالى على بنات آدم فدعي عنك العمرة أو قال ارفضي عمرتك وانقضي رأسك وامتشطي واصنعي جميع ما يصنع الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت } فقد أمرها برفض العمرة لما تعذر عليها الطواف. (المبسوط للسرخسي: 4/ 36)
و إذا ارتفض عمرته لزمه دم لرفض العمرة و لزمه قضاء العمرة. (التاتارخانية: 2/ 394)
عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلی الله عليه و سلم ذبح لرفضها العمرة بقرة. (جامع المسانيد: 1/ 549)
قالت : فقدمت مكة وأنا حائض، فلم أطف بالبيت، ولا بين الصفا والمروة، فشكوت ذلك إلى رسول الله ? فقال : ” انقضي رأسك وامتشطي، وأهلي بالحج ودعي العمرة ". قالت : ففعلت، فلما قضينا الحج، أرسلني رسول الله ? مع عبد الرحمن بن أبي بكر الصديق إلى التنعيم، فاعتمرت فقال : ” هذا مكان عمرتك ". (المؤطا)
و لو طاف للعمرة كله أو أكثر أو أقله و لو شوطاً جنباً أو حائضاً أو نفساء أو محدثاً فعليه شاة، لا فرق فيه بين الكثير و القليل و الجنب و المحدث، لأنه لا مدخل في طواف العمرة للبدنة و لا للصدقة، بخلاف طواف الزيارة، و كذا لو ترك الأقل منه و لو شوطاً لزمه دم، و لو أعاده سقط عنه الدم. (غنية الناسك: 276)
( قوله : ولأن الطواف في المسجد ) يعني ولا يحل للحائض دخوله . والحاصل أن حرمة الطواف من وجهين : دخولها المسجد وترك واجب الطواف ، فإن الطهارة واجبة في الطواف فلا يحل لها أن تطوف حتى تطهر ، فإن طافت كانت عاصية مستحقة لعقاب الله تعالى ولزمها الإعادة ، فإن لم تعده كان عليها بدنة ، وتم حجها ، والله سبحانه أعلم وأحكم. (فتح القدير: 2/ 438)
و لو همّ الركب علی القفول و لم تطهر، فاستفتت هل تطوف أم لا؟ فلو يقال لها: لا تحل لك دخول المسجد و إن دخلت و طفت أثمت و صح طوافك و عليك ذبح بدنة. (غنية الناسك: 274)
حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب مدظلہ العالی اپنی کتاب "حج و عمرہ کے ضروری مسائل” میں لکھتے ہیں:
اگر عورت عمرہ کا احرام باندھ چکی تھی، پھر حیض شروع ہو گیا، اس وقت بھی یہ حکم ہے کہ وہ پاک ہونے کا انتظار کرے اور احرام کی پابندیوں کو پورا کرتی رہے، جب پاک ہو جائے تو نہا دھو کر عمرہ کرے۔
اگر قیام کے دن تھوڑے ہیں اور قیام میں تاخیر نہیں کی جا سکتی تو اگر حالتِ حیض ہی میں عمرہ کرے تو اس کا عمرہ ادا ہو جائے گا، اور اس کو توبہ و استغفار بھی کرنی چاہیے، اور دم میں ایک بکری ذبح کرنا بھی واجب ہے۔ (36) فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved