• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

عمرہ کا طواف کرنے سے پہلے متمتعہ کو حیض آنا، اور پاک ہونے سے پہلے حج کے دن آنا۔ عمرہ کے احرام کے فسخ کرنے کا طریقہ

استفتاء

ایک عورت پاکستان سے حج کے لیے گئی جو کہ حج تمتع کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان سے عمرہ کا احرام باندھا مکہ مکرمہ پہنچ کر ابھی اس نے طواف نہیں کیا تھا کہ حیض شروع ہو گیا، ابھی حیض سے پاک نہیں ہوئی تھی کہ ایام حج آ گئے، تو کیا اب یہ عورت عمرہ کا احرام فسخ کر کے حج کا احرام باندھ کر منیٰ چلی جائے اور مناسک حج ادا کرے۔ کیا بعد میں اس عمرہ کی قضا کرے؟ اس کا کیا طریقہ ہے؟ دم بھی پڑے گا یا کہ نہیں؟ نیز احرام فسخ کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر اس عورت کو اپنی سابقہ عادت کی وجہ سے یہ غالب گمان ہے کہ یہ 9 ذو الحجہ سے پہلے پاک نہ ہو سکے گی یا پاک تو ہو جائے گی لیکن اتنا وقت نہیں رہے گا کہ یہ عمرے کے افعال پورے کر سکے تو یہ عورت ایام حج شروع ہونے پر عمرے کا احرام توڑ دے اور حج کا احرام باندھ لے اور حج ادا کرنے کے بعد اس عمرے کی قضاء بھی کرے اور احرام توڑنے کا دم بھی دے۔

2۔  عمرہ کا احرام فسخ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ عمرے کی نیت ختم کر کے حج کی نیت کرے اور حج کی نیت سے تلبیہ پڑھ کر افعال حج میں لگ جائے۔

بخاری شریف (1/ 211) میں ہے:

عن عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه و سلم قالت خرجنا مع النبي صلى الله عليه

في حجة الوداع فأهللنا بعمرة ثم قال النبي صلى الله عليه و سلم من كان معه هدي فليهلل بالحج مع العمرة ثم لا يحل حتى يحل منهما جميعاً فقدمت مكة و أنا حائض و لم أطف بالبيت و لا بين الصفا و المروة فشكوت ذلك إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال أنقضي رأسك و امتشطي و أهلي بالحج و دعي العمرة ففعلت فلما قضينا الحج أرسلني النبي صلى الله عليه و سلم مع عبد الرحمن بن أبي بكر إلى التنعيم فاعتمرت فقال هذه عمرتك.

فتاویٰ شامی (3/ 665) میں ہے:

و ما ذكر من أن نية الرفض باطلة و أنه لا يخرج من الإحرام إلا بالأفعال محمول على إذا لم يكن مأموراً بالرفض كما سنذكره آخر الجنايات.

فتاویٰ شامی (3/ 714) میں ہے:

فعلم من مجموع ما في البحر و اللباب أنه (الرفض: از ناقل) لا يحصل إلا بفعل شيء من محظورات الإحرام مع نية الرفض به.

مناسک ملا علی قاری (296) میں ہے:

و كل من لزمه رفض العمرة فعليه دم و قضاء عمرة.

مناسک  ملا علی قاری  میں دوسری جگہ (297) ہے:

و هوأن يفسخ (الرجل: از ناقل) نية الحج بعد ما أحرم به و يقطع أفعاله و يجعل إحرامه و أفعاله للعمرة……

اعلاء السنن (10 324) میں ہے:

باب إذا حاضت المتمتعة قبل الطواف و لم تطهر إلى يوم عرفة رفضت عمرتها … و عليها دم لرفض العمرة و قضاءها … و قال ابن قدامة في المغني أن المتمتعة إذا حاضت قبل الطواف للعمرة لم يكن لها أن تطوف بالبيت … و لا يمكنها أن تحل من عمرتها ما لم تطف بالبيت فإن حشيت فوات الحج أحرمت بالحج مع عمرتها و تصير قارنة و هذا قول مالك و الأوزاعي و الشافعي و قال أبو حنيفة رحمه الله (قلت بل علماء الكوفة كما سبق في قول الحافظ ابن حجر) ترفض العمرة و تهل بالحج … و احتج بما روى عروة عن عائشة رضي الله عنها … ثم قال (أي صاحب المغني: از ناقل) و هو (أي قول أبي حنيفة رحمه الله: از ناقل) مخالف للكتاب (أي قوله تعالى و أتموا الحج و العمرة لله) و الأصول إذ ليس لنا موضع آخر يجوز فيه رفض العمرة مع إمكان إتمامها … قلنا أما الكتاب فمعناه أتموا الحج و العمرة لله ما قدرتم على إتمامها و المتمتعة إذ حاضت و لم يطهر قبل الوقوف بعرفة ليست بقادرة على إتمام العمرة … الخ

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved