- فتوی نمبر: 6-16
- تاریخ: 06 جون 2024
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
مسئلہ یہ ہے کہ فریق اول نے عمرہ کی ادائیگی کے لیے فریق ثانی ٹور آپریٹر سے دسمبر 2012ء کے شروع میں ایک ائر لائن کی ٹکٹوں کا معاملہ طے کر کے فی کس 39000 روپے، ٹوٹل 10 ٹکٹوں کی رقم ادا کر دی اور جانا فروری 2013ء کے آخری ہفتہ میں طے ہوا، مگر اتفاق سے 10 جنوری 2013ء کو طے شدہ ائر لائن کی ٹکٹ بند ہو گئی۔ فریق ثانی نے فریق اول کو بتا دیا ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جو باوجودیکہ آج اس ریٹ میں کسی ائر لائن کی ٹکٹ نہیں ملتی، مگر ہم کوشش کریں گے کہ دوسری ائر لائن میں اسی رقم میں آپ کو 10 ٹکٹیں بنوا دیں، مگر جانے تک باوجود کوشش کے اس سابقہ رقم میں ٹکٹیں نہ ملیں۔ اب فریق ثانی نے فریق اول کو بتایا کہ اس وقت 50000 روپے سے کم کوئی ٹکٹ نہ ملے گی، اب کیا کریں؟ تو اس پر فریق اول نے بحث و تکرار کے بعد طے کر لیا کہ میں 49000 فی کس دوں گا، آپ ٹکٹیں بنوا دیں۔
چنانچہ فریق ثانی نے 49000 فی کس ٹکٹ کے حساب سے سب ٹکٹیں بنوا دیں اور ٹکٹیں دیتے وقت فریق ثانی نے بقایا طے شدہ ایک لاکھ روپے کا مطالبہ کیا تو فریق ثانی نے کہا کہ میرے پاس اس وقت یہ رقم نہیں، میرے ساتھیوں نے پتہ نہیں کیسے یہ رقم اکٹھی کی تھی، اب ہم یہ ایک لاکھ روپیہ واپسی پر ادا کریں گے، فریق ثانی نے کہا کہ واپسی پر کوئی نہیں دیتا، آپ ابھی ادا کریں۔ تو فریق اول نے کہا کہ میں یہ رقم خود دوں گا، کوئی مجھے دے یا نہ دے، اس رقم کی ادائیگی میرے ذمہ ہے، اگر آپ کو مجھ پر اعتماد ہے تو ٹھیک ہے ورنہ میں کوئی ضمانت دیتا ہوں۔ فریق ثانی نے دوبارہ اصرار کیا کہ اس ایک لاکھ کا عمرے سے کوئی تعلق نہیں یہ ادا کرنا میری ذمہ داری ہے، یہ آپ کا میرے ذمہ قرض ہے، اس پر فریق ثانی نے فریق اول کی ظاہری دینداری اور حافظ قرآن ہونے پر اعتماد کرتے ہوئے ٹکٹیں دیدیں۔
عمرہ سے واپسی پر فریق ثانی کے رابطہ کرنے پر فریق اول نے پہلے ادائیگی کا وعدہ کیا، پھر رقم کی ادائیگی سے یہ کہہ کر کہ آپ نے رقم زیادہ لی ہے، دینے سے صاف انکار کر دیا۔ ان حالات میں آپ فرمائیں کہ کیا فریق ثانی فریق اول سے بقایا ایک لاکھ روپیہ کا مطالبہ کر سکتا ہے؟ کیا فریق اول کے لیے یہ رقم نہ دینا کیسا ہے؟ نہ دینے کی صورت میں ان کے عمرے کا کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں فریقین کے درمیان پہلے طے ہونے والا معاملہ ائر لائن بند ہونے کے بعد ختم ہو گیا۔
و منها هلاك المستأجر و المستاجر فيه لوقوع اليأس عن استيفاء المعقود عليه بعد هلاكه فلم
يكن في بقاء العقد فائدة حتی لو كان المستأجر عبداً ….. أو دابة معينة فهلك أو هلك الثوب المستأجر في للخيالة أو للقصارة بطلت الإجارة لما قلنا. (بدائع الصنائع: 4/92)
اس کے بعد جب فریقین نے دوبارہ معاملہ کیا تو فریق اول اس عقد کو کرنے میں اپنے ساتھیوں کا وکیل ہے اور عقد اجارہ میں حقوق وکیل کی طرف لوٹتے ہیں، لہذا فریق اول پر باقی اجرت یعنی ایک لاکھ روپے دینا لازم ہیں۔
و الحقوق فيها يضيفه الوكيل إلي نفسه كالبيع و الإجارة تتعلق بالوكيل …. لأن الوكيل هو العاقد حقيقة لأن العقد يقوم بالكام و صحة عبارته لكونه آدمياً و كذا حكما لأنه يستغني عن إضافة العقد إلی المؤكل …. و إذا كان كذلك كان أصيلاً في الحقوق فتتعلق به. (البحر الرائق: 7/ 249)
(و حقوق عقد لا بد من إضافته) أي ذلك العقد (إلی الوكيل كبيع و إجارة) ….. ما دام حياً و غائباً. ابن ملك …. لأنه العاقد حقيقة و حكماً. (الدر المختار: 8/ 280) فقط و الله أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved