• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

عشر سے اخراجات منہا کرنا

استفتاء

ایک آدمی زمین ٹھیکہ پر لیتا ہے اور اس میں فصل کاشت کرتا ہے تو شرعی حکم تو یہ ہے کہ عشر کی ادائیگی پہلے کرے پھر اس میں سے اخراجات نکالے لیکن جو آدمی ٹھیکہ زمین پر لیتا ہے اگر وہ عشر کی ادائیگی مذکورہ صورت میں کرے تو اس کی تمام فصل اختتام پذیر ہوجاتی ہے اور اس کو یا تو کچھ بچتا ہی نہیں اور اگر بچ جائے تو انتہائی قلیل مقدار بچتی ہے۔ اس آدمی کے لیے شرعی حکم کیا ہے؟ کیا وہ اخراجات نکال کر بعد میں عشر کی ادائیگی کرسکتا ہے یا نہیں؟

تفصیل اس کی یہ ہے کہ ایک ایکڑ سے چھ ماہ کے بعد اوسطاً 42 من پیداوار ہوتی ہے۔ اور چھ ماہ کے اخراجات مندرجہ ذیل ہیں : ٹھیکہ 15000 روپے، بیج 70 کلو تقریباً قیمت 3080 روپے بحساب 1760 فی من، ہل کا خرچہ 2600، کھاد بمعہ بجائی 5000، کھاد 2 بوری نقد یوریا 3400، پانی کا خرچہ 4000 روپے، گندم کٹائی کا خرچہ 3000 تقریباً گندم نکلوائی تقریباً 42000 بنتا ہے جبکہ خرچ 41180 بنتا ہے۔ اور چھ ماہ کے بعد بچت صرف 820 روپے بنتی ہے جبکہ کاشتکار کی اپنی محنت و مزدوری اس کے علاوہ ہے اور یہ خرچہ کا حساب اس وقت ہے جبکی وہ چیز نقد ہو اور ادھار کے اندر تو مزید اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ تو ایسے کاشتکار کے لیے ادائیگی عشر کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کہ وہ عشر ادا کرے یا نہ کرے؟ اگر ادا کرے تو اخراجات نکالنے سے قبل یا اخراجات نکال کر؟ اور اگر عشر کل پیداوار میں سے ادا کرنا ہے تو بوقت کٹائی بعض اوقات کٹائی کرنے والے کو کچھ مرلے دیے جاتے ہیں بعوض اجرت کے تو اس صورت میں ان مرلوں کا حساب کیسے کیا جائے گا؟ اور عشر کی ادائیگی مالک کے ذمہ ہے یا کاشتکار کے ذمہ، اور اگر ٹھیکہ لیتے وقت فریقین وضاحت کردیں کہ تمام واجبات مالک نے ہی ادا کرنے ہیں۔ تو اس صورت میں عشر کی ادائیگی کس کے ذمہ ہوگی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ جہاں اس جیسے حالات ہوں جو سوال میں مذکور ہیں تو ایک تہائی پیداوار الگ کر کے دو تہائی کا عشر یا نصف عشر جو بنتا ہے وہ ادا کریں۔

عشر کی ادائیگی پیداوار کے مالک کے ذمے ہے۔

هل يحسم النفقات التي تصرف على المزروعات ؟ جاء في الفتوى رقم (۱۵) في ندوة البركة السادسة في جدة أن هناك آراء ثلاثة في الموضوع، رأي بحسم جميع النفقات، رأي بعدم حسم التكاليف، و رأي متوسط بإسقاط الثلث من المحصول ثم إخراج الزكاة من الباقي. و قد اختار الحاضرون الرأي الثالث المتوسط ثم يتم حساب الزكاة بإخراج العشر إن كان الري بماء السماء و نصف العشر إن كان بآلة. و هذا مستمد من كلام ابن العربي في شرح الترمذي عملاً بحديث النبي صلى الله عليه و سلم دعوا الثلث أو الربع.

و الذي عليه عمل المسلمين و المذاهب الأربعة كما ذكر ابن حزم في المحلى و صرح به الفقهاء أنه لا يجوز إسقاط شيء من النفقة لأن الزكاة تعلقت بعين الخارج لقوله تعالى ’’ و آتوا حقه يوم حصاده ‘‘و هذا ما أرجحه. (ا الفقہ الاسلامی و ادلتہ: 1894- 1893) فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved