• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

عذر کی وجہ سے حائضہ عورت کا وائیٹ بورڈ پر قرآن کی آیات لکھنا

استفتاء

ہمارے بنات کے مدرسہ میں بچیوں کی ناظرہ تعلیم پہلے زبانی ہوتی تھی۔ چنانچہ جب معلمہ نے نماز نہیں پڑھنی ہوتی تھی تو وہ لفظ توڑ توڑ کر پڑھا دیتی تھی۔ لیکن اب مکتب تعلیم القرآن (ٹرسٹ) کی ترتیب مدرسہ میں جاری کی گئی ہے، جس کے لیے بچیوں کو زبانی کہلوانے کے ساتھ ساتھ وائٹ بورڈ پر لکھنا بھی لازمی ہوتا ہے۔ اس صورت میں مذکورہ معلمہ کے لیے کیا حکم ہے۔ کیا وہ آیت قرآنی لکھ سکتی ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں وائیٹ بورڈ پر قرآن کریم کی آیت لکھنے کی مجبوری ہو تو مذکورہ معلمہ وائیٹ بورڈ پر آیاتِ قرآنی  لکھ سکتی ہے۔ بشرطیکہ ہاتھ وائیٹ بورڈ پر نہ لگے۔ تاہم احتیاط کرے تو بہتر ہے۔[1]

و في التنوير:

و لا يكره كتابة قرآن و الصحيفة أو اللوح علی الأرض عند الثاني. (1/ 350)

و في الجوهرة:

و هل يجوز للجنب كتابة القرآن؟ قال في منية المصلي لا يجوز و في الجندي يكره للجنب و الحائض كتابة القرآن إذا كان مباشرا للوح و البياض و إن وضعهما علی الأرض و كتبه من غير أن يضع يده علی المكتوب لا بأس به. (1/ 35)

و في رد المحتار:

و وفق ط بين القولين بما يرفع الخلاف من أصله بحمل قول الثاني علی الكراهة التحريمة و قول الثالث علی التنزيهة بدليل قوله أحب إليّ أن لا يكتب. (1/ 350)

و في المحيط البرهاني:

و لا بأس بكتابة القرآن عند أبي يوسف رحمه الله تعالی إذا كانت الصحيفة علی الأرض، لأنها لا تحتمل المصحف و الكتابة تقع حرفاً حرفاً. و ليس الحرف الواحد بقرآن، و قال محمد رحمه الله تعالی أحب إليّ أن لا يكتب لأنه في حكم الماس للحروف، فهي بكليتها قرآن. (1/ 402)

احسن الفتاویٰ میں ہے:

سوال: بلا وضو کسی ورق پر قرآن کریم کی آیت لکھنا کیسا ہے؟ معلمہ یا متعلمہ کا ایام مخصوصہ کوئی آیت لکھنے کی ضرورت پیش آ جائے، تو اس کے لیے کوئی گنجائش ہے یا نہیں؟

جواب: کاغذ کو ہاتھ لگا کر لکھنے میں کوئی گنجائش نہیں ہے، بلا مس ورق کتابت میں اختلاف ہے، بوقت ضرورت گنجائش ہے۔

[1] ۔ محترم و مکرم حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ

السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ

گذارش ہے کہ حائضہ عورت کے لیے قرآن پاک لکھنے سے متعلق مختلف عبارات سامنے آئی ہیں، جو ساتھ لف ہیں۔ ان کے بارے میں آپ کی رائے مطلوب ہے۔

از: دار الافتاء

نوٹ: جواز کے حوالے جواب کے ذیل میں درج کر دیے گئے ہیں۔

  عدم جواز کے حوالے

و في الهندية:

و كره للجنب و الحائض أن يكتبا الكتاب الذي في بعض سطوره آية من القرآن و إن كانا لا يقرءان القرآن و الجنب لا يكتب القرآن و إن كان الصحيفة علی الأرض و لا يقع يده عليها  و إن كان ما دون الآية. و قال محمد رحمه الله أحب إليّ أن لا يكتب و به أخذ مشائخ بخاری، هكذا في الذخيرة. (1/ 39)

جدید فقہی مسائل میں ہے:

جنابت میں قرآن کی کتابت و ٹائیپ:

جنابت کی حالت میں قرآن مجید کا لکھنا درست نہیں ہے، یہاں تک کہ اگر کاغذ اس طرح  ہو کہ اس پر ہاتھ رکھنے کی نوبت نہ آئے، تو بھی درست نہیں ہے، چاہے ایک آیت سے کم بھی کیوں نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنبی کے لیے قرآن مجید کی کمپوزنگ اور اس کو ٹائیپ کرنا بھی درست نہیں ہو گا۔ (1/ 34)

فتاویٰ حقانیہ میں ہے:

حالت جنابت میں کمپیوٹر سے قرآن لکھنے کا حکم:

سوال: حالت جنابت میں قرآنی آیات کی بذریعہ ٹائیپ رائٹر یا کمپیوٹر کرنا کیسا ہے؟

جواب: شریعت مقدس میں قرآن کریم کا احترام اصلاً مقصود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنبی آدمی کے لیے تلاوت جائز نہیں ہے۔ اسی طرح فقہاء کرام نے جنبی آدمی کے لیے لکھنا بھی منع فرمایا ہے۔ چونکہ ٹائیپ رائٹر، کمپیوٹر میں حالت جنابت میں قرآن لکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے درست نہیں ہے۔ البتہ بے وضو جدید ذرائع سے کتابت قرآن کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ قرآن آیات کو ہاتھ نہ لگے۔ (2/ 566)

عمدة الفقہ میں ہے:

قرآن شریف کا لکھنا اگرچہ کتاب زمین پر رکھی ہو اور وہ اس پر ہاتھ بھی نہ رکھے، ان تینوں (حائضہ، جنبی، بے وضو) کے لیے فتوی ٰ کی رو سے جائز نہیں۔ (1/ 261)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved