• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وراثت کی ایک صورت

استفتاء

مفتی صاحب ایک سوال پوچھنا تھا میرے والد صاحب وفات پاچکے ہیں اور میرے والد کی دو جائیدادیں  ہیں:

(1) زرعی زمین 24 کنال 5 مرلہ۔ اس زمین میں سے   2 کنال 5 مرلہ زمین والدہ نے اپنے بھتیجے کو اپنی زندگی میں 3,50,000 میں فروخت کی اور رقم اپنی بیوہ پوتی کو اپنی خوشی سے گفٹ دے دی اور اسی طرح  والد صاحب نے 2 کنال زمین اس زمین میں سے اپنے بھتیجے کو دے دی، اس طرح 24 کنال 5 مرلہ زمین میں سے 4 کنال 5 مرلہ زمین نکل گئی  اس کے بعد بقایا 20 کنال زمین والد صاحب نے  اپنے بڑے بیٹے ارشاد کو اپنی خوشی سے رجسٹری کروا دی۔

(2) والد صاحب کی دوسری جائیداد آبائی گھر  ہے جو تقریباً سوا چھ مرلے ہے اور اس کی  مالیت تقریباً  18000000  ہے۔والد صاحب نے  یہ  گھر دو بیٹوں کو دے دیا۔ ورثاء میں تین بھائی ****** اور 6 بہنیں ****ہیں ۔

ہم دو بھائی**** اپنی بہنوں کو حصہ دینا چاہتے ہیں جبکہ  ایک بھائی*** راضی نہیں ہے تو اس کا کیا حساب ہوگا؟والد کے انتقال کے وقت دادا، دادی زندہ نہیں تھے، والد کے بعد والدہ فوت ہوئیں، والدہ کے انتقال کے وقت بھی نانا، نانی موجود نہ تھے۔

وضاحت مطلوب ہے: یہ زمین والدہ کی تھی یا والد کی تھی اور والدین کی ترتیب وفات کیا ہے اور ان کی اپنی اپنی وراثت کی تفصیل کیا ہے ؟

جواب وضاحت:والد صاحب کے نام تھی، پہلے والد صاحب کی وفات ہوئی  پھر والدہ کی، دونوں کے انتقال کے وقت ان کے والدین زندہ نہ تھے۔

بہن بھائیوں کے حصے نکال کر مشکور فرمائیں۔

سائل نے  دوبارہ دارالافتاء آ کر مندرجہ ذیل تفصیلی بیان دیا :

ہمارے والد صاحب کا *** کو انتقال ہوا تھا، ہمارے والد صاحب کی دو جائیدادیں تھیں جن کی تفصیل سوال میں ذکر  کردی گئی ہے۔ میں نے اپنی بیٹی کی شادی اپنے بھانجے سے کی تھی لیکن 2014 میں میرے داماد کا انتقال ہوگیا تو میری بیٹی نے اپنے شوہر کی وراثت میں سے حصہ مانگا تو انہوں نے انکار کردیا تو ہم نے استقرارِ حق کا کیس  کروا دیا تو میرے بہنوئی نے میری بہن سے زبردستی میرے خلاف استقرارِ حق کا کیس کردیا کہ وراثت میں سے حصہ نہیں دیا گیا لیکن چونکہ میرے نام رجسٹری تھی اور  قبضہ بھی میرا تھا تو فیصلہ میرے حق میں ہوگیا تو میں نے وہ جگہ ایک کروڑ  چھ لاکھ میں فروخت کر دی اسی رقم میں سے میں اپنی بہنوں اور بھائیوں کو جو بھی ان کا شرعی حصہ بنتا ہے دینا چاہتا ہوں میں نے کچھ حساب لگا رکھا ہے نامعلوم وہ ٹھیک ہے یا نہیں آپ سے رہنمائی درکار ہے، بھائیوں کو میں نے کہا ہے کہ جو تمہارا حصہ میرے والی زمین میں بنتا ہے میں دیتا ہوں تم بھی اپنی زمین میں مجھے دو یا تم  اپنا  حصہ مجھے چھوڑ دو اورمیں  اپنا حصہ تمہیں چھوڑتا ہوں۔

*** نے کہا کہ ٹھیک ہے میں راضی ہوں، آپ بڑے ہیں۔ لیکن سعید بھائی نہیں مانتے وہ کہتے ہیں کہ مجھے چار کنال دو۔ تمہارا میری زمین میں کوئی حصہ نہیں بنتا، والد صاحب کے سامنے مان جاتا تھا اور ہمارے سامنے بھی مان جاتا تھا لیکن گھر جا کر مکر جاتا تھا اب وہ بھائی بہنوں کو حصہ دینے کے لئے راضی نہیں، جبکہ سعید بھائی کے نام جگہ کی رجسٹری بھی نہیں ہے  والد صاحب کی طرف سے  صرف ہبہ کا  اسٹام ہے ، والدہ کی وفات کے بعد بہن بھائیوں سے شناختی کارڈ لے کر وراثت اپنے نام کروالی تھی۔والد امجد بھائی کے ساتھ  اس مکان میں رہتے تھے جو ان دو بھائیوں کو والد نے دیا تھا، اب میرے ذمے بہن بھائیوں کا حصہ کتنا ہے؟ میرے پاس جائیداد کی رقم ایک کروڑ 6 لاکھ ہے۔

نوٹ:***کے موقف لینے کے حوالے سے سائل نے کہا کہ سعید بھائی کو سماعت کا مسئلہ ہے آلہ لگا ہوا ہے، وہ فون نہیں رکھتے، دو بیٹوں میں سے ایک فوت ہوگیا ہے اور ایک سے بنتی نہیں اگر ہم نے بھی کوئی بات کرنی ہو تو جا کر ہی بات کرتے ہیں، ****کا کہنا ہے کہ میں نے دکانوں کی تعمیر میں ایک لاکھ 37 ہزار روپے دیے تھے لیکن ہمارا کہنا ہے کہ ملبہ کی رقم بھی تھی اور اتنا عرصہ کرایہ بھی نہیں دیا کیونکہ زمین والد کی تھی، والدہ کا حصہ بھائی امجد کے پاس ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت  میں دونوں جائیدادوں کی مجموعی رقم 2,86,00,000 بنتی ہے جس میں سے ایک بھائی کا حصہ 16.666 فیصد (47,66,666 ) بنتا ہے اور ایک بہن کا حصہ 8.333 فیصد (23,83,333 روپے ) بنتا ہے، اس حساب سے ارشاد اپنے پاس ایک کروڑ 6 لاکھ میں سےاپنا حصہ رکھ کر باقی 58,33,333.33روپے اپنی بہنوں میں برابر تقسیم کردے اور امجد کے  پاس موجود مکان کی کُل قیمت ایک کروڑ اسی لاکھ مالیت میں سے نصف یعنی 90لاکھ میں سے اپنا حصہ رکھ کر باقی 42,33,333.33 روپے اپنی بہنوں میں برابر تقسیم کردے۔ باقی جو بھائی بہنوں کو حصہ دینے پر رضامند نہیں ہے وہ جانے اور اس کا اللہ جانے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved