• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

وراثت میں ملاہوا مال حرام ورثاء کےلیے حلال ہے

استفتاء

1۔میرا سوال ہے کہ بینک میں جمع شدہ رقم جو بیٹے کو باپ کی طرف سے منتقل کی گئی ہو اس کا صحیح پتا نہیں وہ سود سے مکمل پاک ہے یا نہیں کیا یہ رقم بیٹے کے لیے جائز ہے؟

2۔ اگر رقم میں کچھ سود ہو اور کچھ رقم سود کے بغیر مگر یہ پتا نہ ہو کہ کتنی سود والی اور کتنی سود کے بغیر تو کیا یہ رقم جائز ہے؟

3۔ اگر اس رقم سے زمین یا استعمال کا سامان خرید لیا تو اب کیا کریں؟

وضاحت مطلوب:

1۔ والد کا اکاؤنٹ کس بینک میں تھا؟

2۔ اکاؤنٹ کونسا تھا یعنی کرنٹ یا سیونگ یا کوئی اور ؟

3۔ کیا بینک سے معلوم نہیں ہو سکتا کہ اس میں کتنی رقم اصل ہے اور کتنی سود ہے؟

نوٹ: ہر بات کا جواب تفصیلی اور تسلی بخش ہو۔

جواب وضاحت:

1۔ والد صاحب کا اکاؤنٹ کسی بینک میں نہیں تھا بلکہ جی پی او میں تھا۔

2۔ سیونگ تھا۔

3۔ جی پی او سے نہیں پتا چل سکتا کہ کتنی رقم اصل اور کتنی سود والی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ 2۔ مذکورہ صورت میں بیٹےکو چاہیے کہ خوب سوچ کر اور ہوسکے تو کسی متعلقہ ماہر سے مشورہ کر کے یہ اندازہ لگالے کہ اس رقم میں کتنی مقدار سود کی ہے، اتنی مقدار کسی مستحق زکوۃ کو صدقہ کردے۔اگر بالکل بھی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تو یہ رقم استعمال میں لانے کی گنجائش ہے۔

3۔اگراس رقم سےزمین یا استعمال کا سامان خرید لیا ہے تب بھی یہی حکم ہے۔

در مختار میں ہے:

وفي الأشباه الحرمة تنتقل مع العلم إلا للوارث إلا إذا علم ربه قلت ومر في البيع الفاسد لكن في المجتبى مات وكسبه حرام فالميراث حلال ثم رمز وقال لا نأخذ بهذه الرواية وهو حرام مطلقا على الورثة فتنبه

شامی میں ہے:

 قوله ( إلا إذا علم ربه ) أي رب المال فيجب على الوارث رده على صاحبه .قوله ( وهو حرام مطلقا على الورثة ) أي سواء علموا أربابه أو لا فإن علموا أربابه ردوه عليهم وإلا تصدقوا به كما قدمناه آنفا عن الزيلعي أقول ولا يشكل ذلك بما قدمناه آنفا عن الذخيرة و الخانية لأن الطعام أو الكسوة ليس عين المال الحرام فإنه إذا اشترى به شيئا يحل أكله على تفصيل تقدم في كتاب الغصب بخلاف ما تركه ميراثا فإنه عين المال الحرام وإن ملكه بالقبض والخلط عند الإمام فإنه لا يحل له التصرف فيه قبل أداء ضمانه وكذا لوارثه ثم الظاهر أن حرمته على الورثة في الديانة لا الحكم فلا يجوز لوصي القاصر التصدق به ويضمنه القاصر إذا بلغ تأمل. قوله ( فتنبه ) أشار به إلى ضعف ما في الأشباه

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

وإذا مات الرجل وكسبه خبيث فالأولى لورثته أن يردوا المال إلى أربابه فإن لم يعرفوا أربابه تصدقوا به وإن كان كسبه من حيث لا يحل وابنه يعلم ذلك ومات الأب ولا يعلم الابن ذلك بعينه فهو حلال له في الشرع والورع أن يتصدق به بنية خصماء أبيه كذا في الينابيع.

شامی میں ہے:

مطلب فيمن ورث مالا حراما  قوله ( إلا في حق الوارث الخ ) أي فإنه إذا علم أن كسب مورثه حرام يحل له لكن إذا علم المالك بعينه فلا شك في حرمته ووجوب رده عليه وهذا معنى قوله وقيده في الظهيرية الخ وفي منية المفتي مات رجل ويعلم الوارث أن أباه كان يكسب من حيث لا يحل ولكن لا يعلم الطالب بعينه ليرد عليه حل له الإرث والأفضل أن يتورع ويتصدق بنية خصماء أبيه ا هـ وكذا لا يحل إن علم عين الغصب مثلا وإن لم يعلم مالكه لما في البزازية أخذ مورثه رشوة أو ظلما إذا علم ذلك بعينه لا يحل له أخذه وإلا فله أخذه حكما أما في الديانة فيتصدق به بنية إرضاء الخصماء ا هـ الحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما والأحسن ديانة التنزه عنه .

امداد الفتاویٰ (350/4) میں ہے:

سوال: باپ نے بذریعہ حلال یاحرام کچھ مال حاصل کیا تھا بیٹوں کو تحقیقی طور سے معلوم ہوا کہ ذریعہ حرام سے مال حاصل کیا اس صورت میں بیٹوں کو وہ مال لینا حلال ہے یا حرام؟

جواب: ہرچند بعض فقہاء نے مطلقاً مال حرام کو وارث کے لیے حلال کہا ہے لیکن یہ روایت صحیح نہیں، مفتیٰ بہ اور معتمد یہ ہے کہ ان کے لئے بھی حرام ہے پس اگر ارباب حقوق ورثہ کو معلوم ہیں تو اگر بعینہ ان کی چیز محفوظ ہو تو اس کو ورنہ اس کی قیمت واپس کر دیں، اور اگر معلوم نہیں تو اگر مال حرام معین اور متمیز ہے تو اس کو مالک کی نیت سے تصدق کردیں اور اگر مخلوط غیر متمیز ہے تو اگر اس کی مقدار قیمت معلوم ہے ہے اس کو تصدق کر دیں ورنہ تخمینہ کرکے تصدق کر دیں انشاء اللہ تعالی آخرت میں مواخذہ نہ ہوگا۔

لا نأخذ بهذه الرواية وهو حرام مطلقا على الورثة فتنبه در مختار، في الشامي بعد البحث الطويل الحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما والأحسن ديانة التنزه عنه انتهى، في الدر المختار عليه ديون و مظالم جهل اربابها فعليه التصدق بقدرها و سقط عنه المطالبة في العقبى. و اللہ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved