• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ويزه قسطوں پر خريدنے کا حکم

استفتاء

  1. سعودی عرب سے ایک ویزہ یہاں پاکستان میں ایک ایجنسی کے واسطے سے آیا ہے، جس کی قیمت 3لاکھ روپے ہے، زید اس ویزے کو خریدنا چاہتا ہے لیکن فی الفور اس کے پاس نقد رقم نہیں ہے، زید نے بکر سے کہا کہ آپ یہ ویزہ خرید ليں۔ بعد میں، میں آپ سے ادھار (قسطوار) خرید  لوں گا۔ بکر نے کہا کہ میں آپ کو 3لاکھ کا ویزہ 4لاکھ روپے میں ماہانہ 50000روپے قسط کے ساتھ بیچوں  دونگا۔ زید نے بکر  کی یہ شرط مان لی۔
  2. سعودی عرب سے ایک ویزہ زید کے نام آیا، لیکن فی الفور زید کے پاس نقد رقم نہیں ہے زید نے بکر سے کہا کہ آپ میرے لیے ویزہ خرید لیں بعد میں،میں آپ کو قسطوار تمہاری رقم لوٹا دونگا۔ بکر نے کہا کہ میں آپ کو یہ تین 3لاکھ کا ویزہ 4لاکھ روپے میں ماہانہ 50000ہزار روپے قسط کے ساتھ دونگا۔ زید نے یہ شرط مان لی۔

کیا یہ دونوںصورتیں جائز ہیں؟

وضاحت مطلوب ہے کہ:    جس ملک سے ویزہ آیا ہے کیا ان کی طرف سے اجازت ہوتی ہے کہ جس کے نام ویزہ ہے اس کے علاوہ بھی کوئی دوسرا اسے خریدلے۔

جواب وضاحت:  جس صورت ميں كسی خاص شخص کے نام پر ویزہ آیا ہو تو اس صورت میں اجازت نہیں ہوتی  ورنہ اجازت ہوتی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

پہلی صورت وعدے کی ہے اور جائز ہے لیکن وعدے کا مطلب یہ ہے کہ اس وعدے کے باوجود بعد میں زید بکر سے یہ ویزہ خریدنے کا پابند نہیں اور نہ ہی بکر زید کو فروخت کرنے کا پابند ہے اور نہ ہی زید اور بکر دونوں ذکر کردہ ریٹ پر خریدنے اور بیچنے کے پابند ہیں۔ البتہ زید کے یہ ویزہ نہ خریدنے کی صورت میں بکر کو یہ ویزہ 3لاکھ روپے سے کم میں بیچنا پڑے تو زید کے وعدہ خلافی کی وجہ سے بکر اس کمی کی تلافی زید سے کرواسکتا ہے۔ اور اگر اس وعدے کی وجہ سے زید کو خریدنے کا اور بکر کو فروخت کرنے کا پابند سمجھا جائے تو یہ صورت جائز نہیں۔

دوسری  صورت ناجائز ہے کیونکہ دوسری صورت میں چونکہ ویزہ زید کے نام پر آیا ہے اور زید ہی اسے خرید سکتا ہے اس لیے اس صورت میں بکر کے تین لاکھ دینے کی حیثیت قرض کی بنے گی جس پر بعد میں وہ زید سے نفع بھی لے گا جو کہ سود اور ناجائز ہے۔

امداد الفتاوی(3/40)میں ہے:سوال:  عمرو نے زید کو کہا کہ تم مجھ کو ایک صد روپیہ کا مال جفت پاپوش منگا دو میں تم سے صد کا منافع دے کر ادھار ایک ماہ کے واسطے خرید لوں گا یا جس قدر مدت کے واسطے تم دو گے اسی حساب سے منافع دوں گا یعنی پانچ روپے ایک صدر روپیہ کا منافع ایک ماہ کے واسطے ہے جب مال آجاوے گا اس وقت مدت ادھار اور منافع کی معین ہو جاوے گی اس وقت اس کے جواب میں زید نے کہا میں منگا دوں گا،مگر اطمینان کے واسطے بجائے ایک صد کے دو صد کا رقعہ لکھاؤں گا تاکہ تم خلاف عہدی نہ کرو،عمرو نے منظور کیا۔

جواب: اس میں دو مقام قابل جواب  ہیں، ایک یہ کہ زید و عمرو میں جو گفتگو ہوئی یہ وعدہ  محضہ ہے، کسی کے ذمہ عقد لازم نہیں ،اگر زید کے منگانے کے بعد بھی عمرو انکار کردے تو زید کو مجبور کرنیکاکرنے کا کوئی حق نہیں ،بس اگر عرف وعادت میں عمرہ کو مجبوری سمجھا جاتا ہو تو یہ معاملہ حرام ہے ،ورنہ حلال ،اسی طرح عمرو کو  اور مثل عمرو کے زید کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ وعدہ بیع پر قائم رہنے کی صورت میں منافع کی مقدار میں تغیر وتبدل کر دیں، یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ایک ماہ کے ادھار کی صورت میں پانچ روپے سیکڑہ نفع کا ٹھہرا تھا ، باقی زیادہ لکھانا یہ بیع ہزل فی مقدار الثمن ہے ،اگر عمرو کی بد عہدی کی صورت میں بھی زیادہ مقدار واقعی ثمن سے زیادہ وصول  نہ کرے تو جائز ہے ورنہ حرام ہے،نیز زید پر واجب ہو گا کہ ورثاء کو اس کی اطلاع کر دے تا کہ زید کے بعد وہ عمرو کو پریشان نہ کریں ۔فتاوی حقانیہ(6/54) میں ہے:ویزہ اگرچہ کاغذ کا ایک پرزہ ہوتا ہے مگر متعلقہ ملک کی حکومت کی طرف سے اسے قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے ا سکی قیمت  بڑھ جاتی ہے لہٰذا قانونی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے  اسے بیچنا اور اس کی بھاری قیمت لینا شرعا جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved