• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ویزہ ٹکٹ کا خرچہ اور سرمایہ دے کر، کاروبار کے نفع میں شریک ہونا

استفتاء

اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو ویزہ ٹکٹ کے پیسے دے کہ وہ باہر کے ملک جا کر کام کرسکے اور  اس کو کام کے لیے رقم بھی  مہیا کرے اور وہ دونوں آپس میں ایک تناسب سے نفع تقسیم کریں ۔کیا یہ صورت جائز ہے؟

وضاحت مطلوب ہے:کام سے کیا مراد ہے؟

جواب وضاحت :مراد یہ ہے کہ اگر باہر کے ملک جانے والا آدمی ملازمت کرے یا کاروبار کرےتو اس کے نفع  میں سے ملک میں موجود آدمی کو بھی حصہ دے۔

 

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جس صورت میں رقم دینے والا  باہر جانے والے  شخص  کو ویزہ ،ٹکٹ اور کاروبار کے لیے رقم مہیا کرے اور باہر جانے والااس رقم سے کاروبار ہی  کرے یعنی اس رقم کو کسی شے کے خریدنے میں اور اسے آگے فروخت کرنے میں استعمال کیا جائے اور نفع آپس میں کسی فیصدی تناسب سے طے کیا جائے تو یہ صورت  مضاربت کی بنے گی  جو کہ  جائز ہے البتہ مضاربت کی بنیادی شرائط میں سے یہ ہے کہ نقصان ہونے کی صورت میں اگر نقصان  کاروبار کرنے والے کی کوتاہی کے بغیر ہو تو پہلے وہ نقصان نفع میں سے پورا کیا جائے گا اور نفع سے بھی زائد ہونے کی صورت میں رقم دینے والے کو وہ نقصان برداشت کرنا پڑے گا ، اور جس صورت میں  وہ شخص باہر جا کر ملازمت کرے  اور  اس کی کمائی دونوں میں تقسیم ہو تو یہ صورت جائز نہیں  کیونکہ عقد مضاربت کے جائز ہونے کہ لیے ضروری ہے کہ کام کرنے والا اس رقم سے کاروبار کرے۔

نوٹ: مضاربت میں اگر مضارب (کام کرنے والا) کسی دوسرے شہر میں جاکر کاروبار کرے تو اس کے آنے جانے کا خرچہ چونکہ مال مضاربت میں سے محسوب ہوتا ہے لہذا پہلی صورت میں ویزہ اور ٹکٹ کا خرچہ بھی مال مضاربت میں سے لیا جاسکتا ہے۔

تنویر مع الدر(8/500)میں ہے:

(وشرطها)امور سبعة. . . . . . . . . . . .(وكون الربح بينهما شائعا)فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد

 

التنویر مع الدر(8/514)میں ہے:

(وما هلك من مال المضاربة يصرف الى الربح ) لانه تبع (فان زاد الهالك على الربح لم يضمن ) ولو فاسدة من عمله لانه امين . . . . . . .(واذا اسافر )ولو يوما (فطعامه و شرابه وكسوته و ركوبه)بفتح الراء : ما يركب ولو بكراء (وكل مايحتاجه عادة) اي : في عادة التجار بالمعروف (في مالها)

وفي الشامية تحته: (قوله:من عمله) يعني المسلط عليه عند التجار ، واما التعدي فيظهر انه يضمن .سائحاني

البنایہ شرح الہدایہ (9/ 111)ط:رشيدیہ میں ہے:

الهدايه:قال: وإذا عمل المضارب في المصر فليست نفقته في المال وإن سافر فطعامه وشرابه ‌وكسوته وركوبه ومعناه شراء وكراء في المال

الشرح : وإن سافر فطعامه وشرابه ‌وكسوته وركوبه) ش: بفتح الراء وهو ما يركب عليه، قال الله تعالى: {فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ} [يس: 72] م: (ومعناه) ش: أي معنى ‌ركوبه أي معنى كون ‌ركوبه في المال م: (شراء وكراء) ش: أي من حيث الشراء ومن حيث الكراء.

أراد أن المضارب في السفر له أن يركب إما بشراء دابة أو بكراء بها م: (في المال) ش: أي في مال المضاربة وهو ظرف للجميع والشرط أن يكون ذلك كله بالمعروف.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved