• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

والدین کی وفات کے بعد پوتے، پوتیوں اور نواسے، نواسیوں میں میراث کی تقسیم، ایک وارث کی طرف سے مشترکہ گھر میں تعمیر کا حکم

استفتاء

والدین کی وفات کے بعد 60 مرلہ کا گھر 3 بیٹوں اور 1 بیٹی کے نام ہو گیا اب ان میں سے ایک بیٹا (زید) فوت ہو گیا جو کہ غیرشادی شدہ تھا،باقی 2بیٹے(خالد, بکر) اور ایک بیٹی  فاطمہ رہ گئے تھے. جن میں سے بھی  خالد  فوت ہو گیا جس کے ورثاء میں ایک بیوہ اور تین بیٹیاں ہیں اور بیٹا نرینہ اولاد نہیں ہے اب سوال یہ ہے کہ اس بھائی ( خالد) کا بیٹا نہیں تھا تو اس کے حصے میں کچھ حصہ بھائی (بکر) اور( بہن )  فاطمہ  کو جائے گا اگر جائے گا تو کتنا جائے گا۔اور اب باقی جو ایک بھائی بکر اور بہن فاطمہ زندہ تھے وہ بھی وفات پا گئے ہیں، جن میں سے  بکر کا انتقال کا انتقال پہلے ہوا   اور  فاطمہ (ہمشیرہ) کا انتقال بعد میں ہوا  اور اب ان کی اولاد جس بھائی (خالد)کا کوئی بیٹا نہیں تھا اور بیوہ اور بیٹیاں ہیں ان سے شرعی حصہ مانگ رہے ہیں جو بھائی بکر کے بچے حصہ مانگ رہے ہیں ان میں ایک بیوہ ایک بیٹی 3 بیٹے ہیں اور  بہن(فاطمہ ) کے بچے حصے مانگ رہی ہیں ان میں 1 بیٹا اور 2بیٹیاں ہیں۔فاطمہ کا شوہر فاطمہ کی وفات کے وقت حیات تھا، بعد میں انتقال کرگیا۔

سب سے بڑے بھائی    زید جو کہ غیر شادی شدہ تھے ان کی وفات کے بعد باقی جو دو بھائی حیات تھے انہوں نے باہمی  رضامندی سے 60 مرلوں کو برابر تقسیم کرکے بیچ میں دیوار کرکے علیحدہ علیحدہ گیٹ لگا لیے  اور اپنے 30/30 مرلہ میں   اپنا اپنا ٹیکس  بجلی گیس وغیرہ اپنے نام سے ادا کرنا شروع کر دیئے اور فرنٹ والا  حصہ خالد جن کی صرف بیوہ اور بیٹیاں ہیں ان کے پاس 30 مرلہ آ گیا اور اس گھر کی بالائی منزل انہوں نے اپنے پیسے سے اپنی زندگی میں تیار کی اور پچھلے 30 مرلہ میں  بکر رہائش پذیر ہوگئے۔

سوال اب چونکہ یہ 60 مرلہ گھر اکٹھا فروخت ہونے جا رہا ہے تو کیا فرنٹ والے حصہ والی فیملی کو جن کی بیوہ اور بیٹیاں ہیں اور انہوں نے گھر کی بالائی مزل اور مکمل اپنے 30 مرلہ گھر کی تزیین وآرائش پر خود خرچہ کیا تھا  ان کا رقم میں بھائی اور بہن سے کچھ حصہ زیادہ ملنا چاہیے کہ نہیں ؟کیونکہ ان کے پاس فرنٹ و کارنر کا حصہ ہے جس میں یہ 30 سال سے رہائش پذیر ہیں اور اس گھر کا کچھ حصہ کرایہ پر دے کر گذارا کرتی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں 60 مرلہ گھر کی تقسیم کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے گھر کے اگلے حصے (30 مرلہ ) کی دو قیمتیں لگوائی جائیں ایک قیمت تزئین و آرائش اور تعمیر شدہ بالائی منزل کے ساتھ اور ایک قیمت اگلے حصے کی تزئین و آرائش اور بالائی منزل کے بغیر ان دونوں قیمتوں کے درمیان جو فرق ہوگا اس کے حقدار  خالد مرحوم کے ورثاء(ایک بیوہ اور تین بیٹیاں) ہوں گے  ۔پھر 60 مرلہ گھر کی ورثاء میں تقسیم درج ذیل  طریقے پر ہوگی کہ  60 مرلہ گھر کو کل 20160 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا جن میں سے 1008حصے( 5 فیصد ) خالد مرحوم کی بیوہ کو ،  1792 حصے( 8.89 فیصد فی کس) ان کی تینوں بیٹیوں میں سے ہر بیٹی کو،  1148 حصے  (5.69فیصد) بکر  مرحوم کی بیوہ کو، 2296 حصے ( 11.39 فیصد فی کس )ان کے تینوں بیٹوں میں سے ہر بیٹے کو ،  1148 حصے (5.69 فیصد) ان کی بیٹی کو ملیں گے۔ اسی طرح 2296 حصے(11.39فیصد) مرحومہ  فاطمہ کے بیٹے کو اور 1148 (5.69فیصد فی کس) مرحومہ کی دونوں بیٹیوں  میں سے ہر  بیٹی کو ملیں گے۔

درر الحکام(3/295) میں ہے:

إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك بإذن الآخروصرف من ماله قدرا معروفا فله الرجوع على شريكه بحصته أي أن يأخذ من شريكه مقدار ما أصاب حصته من المصرفإذا عمر أحد الشريكين المال المشترك بإذن الشريك الآخر أي أن تكون التعميرات الواقعة للمعمر وملكا له فتكون التعميرات المذكورة ‌ملكا ‌للمعمر ويكون الشريك الآخر قد أعار حصته لشريكه.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved