• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

وارث اور غیر وارث کے حق میں وصیت نیز دو بیٹوں اورمیں تقسیمِ میراث

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  ہمارے والدین دونوں کا انتقال ہو گیا ہے ہم پانچ بہن بھائی ہیں، تین بہنیں دو بھائی ہیں، ہم ان کی وراثت کو شریعت کے مطابق تقسیم کرنا چاہتے ہیں ہمارے والد صاحب کا نام ***** ہے ان کے نام ایک عدد دکان ہے جس کی موجودہ مالیت تقریبا 75 لاکھ ہے۔ ایک بات جو ضروری ہے وہ یہ کہ ہمارے والد کی دو بیویاں تھیں ایک ہماری والدہ  (*****) تھیں جس سے ہم دو بھائی اور دو بہنیں ہیں، اور دوسری والدہ سے ایک بھائی اور ایک بہن ہے لیکن ہمارا یہ بھائی والد کی زندگی میں تقریبا 18 سال پہلے ہی وفات پا گیا تھا اس کی ایک بیٹی ہے جو اس کی والدہ کے پاس ہے ،وہ بھی اب شادی شدہ ہے۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ایک مکان ہماری والدہ کے نام ہے جو والد نے اپنی زندگی میں تقریبا 18 یا 20 سال قبل خرید کر والدہ کے نام کر دیا تھا اور وفات سے تقریبا چھ یا آٹھ ماہ قبل اس بات کو واضح بھی کر دیا تھا کہ یہ فلیٹ والدہ کا ہی ہے لیکن چونکہ یہ مکان وہ تھا جس میں تقریبا 40 یا 45 سال ہم رہائش پذیر تھے پہلے یہ کرایہ پر تھا پھر والد نے خرید کر والدہ کے نام کر دیا اور رجسٹری والدہ کو دے دی اس کی مالیت تقریبا 50 لاکھ ہے۔

اب مؤدبانہ درخواست یہ ہے کہ آپ حضرات رہنمائی فرمائیں کہ شریعت کے مطابق کس کا کتنا حصہ بنتا ہے؟

ایک ضروری بات یہ ہے کہ دونوں والدہ کا انتقال والد صاحب کی وفات کے بعد ہوا، والد صاحب کے والدین اور دونوں والدہ کے والدین ان سے پہلے وفات پا چکے تھے، اور یہ کہ والد صاحب نے وفات سے چند ماہ قبل وصیت لکھ کر میرے تایا زاد بھائی کو امانت دے دی جو ان کی وفات کے بعد ہمیں وصول ہوئی اس کی کاپی ہمراہ ہے، اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ” میری بیٹی جو دوسری بیوی سے ہے اس کو تقسیم کے علاوہ تین لاکھ اضافی دیا جائے اور دوسری والدہ کو ایک لاکھ اضافی دیا جائے اور میری پوتی جس کا والد (میرا بھائی )فوت ہو چکا ہے اس کو 50 ہزار دیا جائے۔

اب ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہماری بڑی بہن جو دوسری والدہ سے ہے یہ مطالبہ بھی کرتی ہے کہ جو ان کی والدہ کا وراثت کا حصہ ہے وہ انہیں ہی دیا جائے اس لیے کہ اگر والدہ زندہ ہوتی اور انہیں وہ حصہ ملتا تو وہ ان کو ہی دیتی۔ میری دوسری والدہ کے تین بھائی تھے دو ان کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے ایک بعد میں فوت ہوئے جو بھائی بعد میں فوت ہوا اس کا ایک بیٹا اور چار بیٹیاں ہیں، بیوی فوت ہوچکی ہے اور اس کی وفات کے وقت اس کے والدین فوت ہو چکے تھے۔ باقی دو بھائیوں سے ان کے تین بھتیجے ان کی وفات کے بعد موجود تھے جن میں سے دو کا انتقال ہو چکا ہے لیکن ان کے انتقال کے وقت وہ زندہ تھے۔

اب آپ رہنمائی فرما دیں کہ:

(1) پوتی کے بارے میں والد صاحب نے  جو وصیت کی ہے اس کا کیا حکم ہے ؟

(2) ہماری دوسری والدہ اور ان کی بیٹی کے بارے میں والد صاحب نے جو وصیت کی اس کا کیا حکم ہے؟

(3) دکان کی تقسیم میں کس کا کتنا حصہ ہے؟

(4)مکان کی تقسیم میں کس کا کتنا حصہ ہے؟

(5) دوسری والدہ کا سارا حصہ ہے ان کی بیٹی مانگ رہی ہے کیا وہ سارا حصہ اسی کا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) پوتی کے بارے میں آپ کے والد صاحب نے  جو وصیت کی ہے وہ نافذ ہو گی لہذا دکان کی قیمت میں سے سب سے پہلے 50 ہزار پوتی کو دیا جائے گا۔

(2) آپ کی  دوسری والدہ اور ان کی بیٹی کے بارے میں آپ کے والد صاحب نے جو وصیت کی ہے وہ  دیگر ورثاء کی  رضامندی پر موقوف ہے لہٰذا جو ورثاء اس وصیت پر راضی ہیں ان کے حصوں میں سے اس وصیت کو پورا کیا جائے گا اور  جو راضی نہیں ان کے حصوں  میں سے اس وصیت کو پورا نہیں کیا جائے گا کیونکہ  یہ خود وارث ہیں اور وارث کے حق میں وصیت دیگر ورثاء کی رضامندی  پر موقوف ہوتی ہے۔

(3) وصیت کو پورا کرنے کے بعد مذکورہ صورت میں  دکان کے192حصے کیے جائیں گےجن میں سے ہر  ایک بیٹے کو 52 حصے (27.08%)  ،معراج بانو کی دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک    بیٹی کو 26 حصے (13.54%)،  دوسری بیوی کی بیٹی کو  30 حصے (15.62%)،   دوسری بیوی کے بعد فوت ہونے والے بھائی کے بیٹے کو 2 حصے (1.04%)،  دوسری بیوی کے بعد فوت ہونے والے بھائی کی ہر ایک بیٹی کو ایک حصہ (0.52%)    ملے گا۔

(4)مکان چونکہ آپ کی والدہ کا تھا لہذا وہ ان کی اولاد (دو بیٹوں اور دو بیٹیوں) میں تقسیم ہو گا،  مکان  کے کل 6 حصے کیے جائیں گے جن میں سے 2 حصے (33.33%)  ہر ایک بیٹے کو اور ایک حصہ (16.66%) ہر ایک بیٹی کو ملے گا ۔

(5) دوسری والدہ کا سارا حصہ  ان کی بیٹی کو نہیں ملے گا بلکہ ان کے بعد فوت ہونے والے بھائی کی اولاد کو بھی اس میں سے حصہ ملے گا جس کی تفصیل اوپر درج کر دی گئی ہے۔ جبکہ دوسرے بھائیوں (جو مرحومہ سے پہلے  فوت ہوگئے تھے) کی اولاد  کو کچھ نہیں ملے گا۔

عالمگیری (90/6) میں ہے:

ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved