- فتوی نمبر: 18-350
- تاریخ: 19 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب اگر کسی بندے کو زکوٰۃ ادا کرنے کا وکیل بنایا جائے اور اسے سارا اختیار بھی دے دیا کہ جسے مناسب سمجھے زکوٰۃ دے، حال یہ ہو کہ وکیل خود بھی مستحق زکوٰۃ ہو تو کیا وکیل کا زکوٰۃ خود استعمال کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ اور اس کی جائز یا ناجائز ہونے کی وجہ کیا ہے؟ اور اگر ماضی میں وکیل زکوٰۃ خود استعمال کر چکا ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ وکیل کو زکوٰۃ دیتے وقت کونسے الفاظ بولیں جائیں تو وہ خود بھی زکوٰۃ استعمال کر سکتا ہے؟ جواب عنایت کریں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اگر وکیل کو یہ کہہ دیا گیا ہو کہ ’’تم اس زکوٰۃ کی رقم کا جو چاہو کرو اور جسے چاہو دو‘‘ تو ایسی صورت میں اگر وکیل خود بھی مستحق زکوٰۃ ہو تو اسے زکوٰۃ کی رقم میں سے خود بھی لینا جائز ہے ورنہ خود لینا جائز نہیں۔ اور اگر ماضی میں ایسا کر چکا ہو تو جتنی رقم لی ہے اتنی مستحقین زکوٰۃ کو دیدے، چاہے تھوڑی تھوڑی کر کے دے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved