• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وکیل کا منت کی رقم خود استعمال کرنے یا اپنے گھر والوں کو دینے یا مسجد کے کسی کام میں خرچ کرنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

ایک آدمی نے نذر مانی کہ میرا  یہ کام ہوا تو میں اتنے پیسے صدقہ کروں گا پھر اس نےیہ پیسے ایک آدمی کو دیئے کہ آپ کسی مستحق کو دیدیں جبکہ وہ آدمی جس کو پیسے دیئے گئے ہیں وہ خود بھی  مستحق ہے آیا یہ آدمی (1)ان پیسوں کو  خود بھی استعمال کرسکتا ہے؟(2) یا اپنے گھر میں سے کسی مستحق کو دے سکتا ہے؟(3) یا مسجد کے کسی کام میں خرچ کرسکتا ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)مذکورہ  صورت میں خود استعمال نہیں کرسکتا،  ہاں اگر پیسے دینے والے کی طرف سے مکمل اختیار  دیدیا جائے اور کہا جائے کہ "جو چاہے کرو، جسے چاہے دو” تو اس صورت میں جس کو پیسے دیے ہوں اور مستحق بھی ہو تو وہ نذر کے پیسے خود بھی استعمال کرسکتا ہے۔

(2)گھر والوں میں جو مستحق زکوٰۃ ہوں ان کو یہ رقم دے سکتا ہے۔

(3) مسجد کے کاموں میں یہ رقم استعمال نہیں کرسکتے۔

البحر الرائق(2/227) میں ہے:

‌وللوكيل ‌بدفع ‌الزكاة أن يدفعها إلى ولد نفسه كبيرا كان أو صغيرا، وإلى امرأته إذا كانوا محاويج، ولا يجوز أن يمسك لنفسه شيئا اهـ.إلا إذا قال ضعها حيث شئت فله أن يمسكها لنفسه.

شامی (3/283) میں ہے:

(أى مصرف الزكاة والعشر) وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved