- فتوی نمبر: 30-106
- تاریخ: 30 دسمبر 2023
- عنوانات: مالی معاملات > متفرقات مالی معاملات
استفتاء
1۔ مفتی صاحب اگر کوئی شخص کسی کو وکیل بنائے کہ میرے لئے دوکلو شہد خرید کر لاؤ اور وکیل خرید لائے لیکن بائع وکیل سے پیسے نہ لے تو کیا یہ چیز وکیل موکل کو مفت دے گا یا وکیل کے لیے اس سے پیسے لینا جائز ہے؟
2۔اسی طرح اگر وکیل بائع کو بتادے کہ یہ دوسرے شخص کے لیے خریدتا ہوں تو بائع کہے کہ اس کے پیسے آپ اپنے لیے وصول کرلیں تو اس صورت کا کیا حکم ہے؟
3۔ اور اگر بائع وکیل سے کہے کہ بعض پیسے اپنے لیے وصول کرلو تو کیا وکیل بعض پیسے لے سکتا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1،2) مذکورہ دونوں صورتوں میں وکیل کے لیے مؤکل سے پیسے لینا جائز ہے۔
(3) مذکورہ صورت میں وکیل کے لیے مؤکل سے بعض پیسے لینا جائز نہیں۔
توجیہ: اگر بائع وکیل کے لیے چیز کی قیمت میں کمی کردے یا بعض پیسے وصول کرنے کا کہے تو چونکہ یہ ثمن میں کمی شمار ہوگی اور ثمن میں کمی مؤکل کے لیے سمجھی جاتی ہے لہٰذا اس کے پیسے وکیل کے لیے وصول کرنا جائز نہیں۔
اور اگر بائع چیز مفت دیدے یا کل پیسے اپنے لیے وصول کرنے کا کہے تو یہ اس کی طرف سے وکیل کو ہبہ سمجھا جائے گا لہٰذا اس صورت میں وکیل مؤکل سے پیسے لے سکتا ہے۔
ہندیہ(3/ 588) میں ہے:
«ولو وهب البائع بعض الثمن عن الوكيل يظهر ذلك في حق الموكل حتى لم يكن للوكيل أن يرجع على الموكل بذلك القدر»ولو وهب كل الثمن لا يظهر ذلك في حق الموكل ولو أبرأه البائع عن جميع الثمن فالجواب فيه كالجواب في هبة جميع الثمن كذا في المحيط
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (7/ 155) ميں ہے:
«ولو أمر رجلا أن يشتري له جارية بألف فاشتراها ثم إن البائع وهب الألف من الوكيل فللوكيل أن يرجع على الآمر ولو وهب منه خمسمائة لم يكن له أن يرجع على الآمر إلا بخمسمائة ولو وهب منه خمسمائة ثم وهب منه أيضا الخمسمائة الباقية لم يرجع الوكيل على الآمر إلا بالخمسمائة الأخرى لأن الأول حط والثاني هبة»
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved