- فتوی نمبر: 9-56
- تاریخ: 30 جون 2016
- عنوانات: مالی معاملات > وکالت
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ *** کو ***نے کہا کہ مجھے بازار سے سردیوں کا اچھا سا کوٹ لا دو۔ *** نے کہا کہ 3000 روپے کا ملے گا۔ اور ***نے ***ہ کو تین ہزار روپے دے دیے اور *** نے وہ کوٹ بازار سے 2500 روپے کا خرید لیا۔ اب کیا *** کے لیے اوپر والے پانچ سو روپے رکھنا جائز ہے یا ناجائز؟
وضاحت: *** کا مستقل کاروبار نہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
***ہ کے لیے اوپر والے پانچ سو روپے رکھنا جائز نہیں۔ کیونکہ ***نے *** کو چیز خریدنے کے لیے نمائندہ بنایا ہے اور اجرت متعین نہیں کی اور نہ ہی *** کا کاروبار ہے جس کی وجہ سے وہ لوگوں کو اجرت پر چیزیں خرید کر دیتا ہو۔ لہذا یہ 500 روپے ***کے ہیں اسے واپس کرنے ضروری ہے۔
فتاویٰ شامی (5/ 29) میں ہے:
استعان برجل في السوق يبيع متاعه فطلب منه أجراً فالعبرة لعادتهم أي لعادة أهل السوق فإن كانوا يعملون بأجر يجب أجر المثل و إلا فلا.
مسائل بہشتی زیور (از ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب) (2/ 312)میں ہے:
’’جب وکالت پر اجرت شرط کی ہو اور وکیل نے وکالت پوری کر دی ہو تو وہ اجرت کا مستحق بن جاتا ہے۔ اور اجرت شرط نہ کی ہو اور وکیل بھی ایسا نہیں جو اجرت پر کام کرتا ہو تو وہ احسان کرنے والا ہو گا۔ اور اس کو اجرت کا مطالبہ کرنے کا حق نہ ہو گا۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved