- فتوی نمبر: 30-36
- تاریخ: 22 دسمبر 2023
- عنوانات: مالی معاملات > متفرقات مالی معاملات
استفتاء
وکالت کے کام میں ہر وکیل کے تحت ایک منشی (کلرک) ہوتا ہے جس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ کلائنٹ کے پیپر پورے کرے ، کلائنٹ کو پیشی پر حاضر کرے وغیرہ ،اس منشی کی الگ سے تنخواہ طے نہیں ہوتی بلکہ وکیل منشی کو یہ کہتا ہے کہ کلائنٹ جو دے دے وہ ہی تمہارا خرچہ ہو گا۔ جب کلائنٹ پیشی پر آتا ہے تو وکیل اس کو کہتا ہے کہ اس(منشی) کو تھوڑا بہت خرچہ دے دو ، وہ 500 یا 1000 روپے دے دیتا ہے، اور یہ پیسے جو وکیل سے فیس طے ہوتی ہے اس کے علاوہ ہوتی ہے جو پہلے سے طے نہیں ہوتی ، اب سوال یہ ہے کہ منشی کے لیے یہ رقم لینا جائز ہے؟
مستفتی: (منشی)
تنقیح :منشی کی فیس کے بارے میں جو اس شعبہ کے لوگوں سے معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ درج ذیل ہیں :
1۔ ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ وکیل کی طرف سے منشی کی تنخواہ متعین ہوتی ہے جو وہ اپنی فیس میں سے خود ادا کرتا ہے عام طور پر اچھے وکیل ایساہی کرتے ہیں اور اس صورت میں کلائنٹ سے منشی کچھ نہیں لیتا۔
2۔ وکیل جب کلائنٹ سے اپنی فیس کا معاملہ طے کرتا ہے اسی وقت اس کو بتادیتا ہے کہ اس فیس کا دس 10 فیصد بطور منشیانہ منشی کو بھی دینا ہو گا۔
3۔ تیسری صورت یہ ہوتی ہے کہ وکیل کی طرف سے منشی کی کوئی فیس مقرر نہیں ہوتی اور کلائنٹ سے بھی اس کے منشیانے کے بارے میں پہلے سے کچھ طے نہیں ہو تا بلکہ وکیل منشی کو کہہ دیتا ہے موقع پر جو کلائنٹ سے مل گیا وہ تمہارا خرچہ ہو گا۔ نیز یہ تیسری صورت بھی کم نہیں بلکہ رائج ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
منشی کے لیے یہ رقم لینا جائز نہیں ۔
توجیہ: وکیل کا کلائنٹ سے طے شدہ فیس کے علاوہ ہر پیشی پر منشی کے لیے خرچہ طلب کرنے کی دو ممکنہ توجیہیں ہوسکتی ہیں پہلی یہ کہ چونکہ فیس لینے کی وجہ سے یہ کام پہلے سے وکیل کے ذمے تھے چاہے خود کرے یا کسی سے کروائے لہذا اس کام کے مزید پیسے لینا رشوت ہے جوکہ ناجائز ہے ، اور دوسری یہ کہ یہ اجرت کا ہی حصہ ہے یعنی اجرت کے دو حصے ہیں ایک یکمشت اور دوسرا ہر پیشی کے وقت یہ صورت بھی جائز نہیں بنتی کیونکہ اس کو اجرت کا حصہ بنانے کے وجہ سے اجرت میں جہالت لازم آئے گی اور یہ جہالت بھی اتنی معمولی درجہ کی نہیں جو مفسد نہ ہو نیز اکثر کلائنٹ کو پہلے سے اس کا علم بھی نہیں ہوتا بعد میں مجبورا ہی دے رہے ہوتے ہیں۔ لہذا مذکورہ صورت میں چونکہ وکیل کا کلائنٹ سے اس مزید رقم کا تقاضہ کرنا جائز نہیں تو منشی کے لیے اس کو لینا بھی جائز نہیں ۔
اعلاء السنن (15/64)میں ہے:
والحاصل ان حد الرشوة هو ما يؤخذ عما وجب على الشخص سواء كان واجبا علی العين اوعلى الكفاىة وسواء كان واجبا حقا للشرع كما في القاضي وامثاله ۔۔۔ او كان واجبا عقدا كمن آجر نفسه لاقامة امر من الامور المتعلقة بالمسلمين فيما لهم او عليهم كاعوان القاضي واهل الديوان وامثالهم كذا في الكشاف للتهانوي (7/596)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved