- فتوی نمبر: 11-338
- تاریخ: 09 اپریل 2018
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان
استفتاء
فرخ کرائے کے مکان میں رہتا تھا ،بے روزگار ہوا تو اپنی بیوی بچوں کو ان کے نانا کے ہاں چھوڑ کرپردیس کمانے چلا گیا ۔فرخ کی سب سے بڑی لڑکی نے اپنے ماموں کے بیٹے سے عدالت جاکر وکیل کے کمرے میں نکاح خواں سے 3گواہوں کے سامنے اپنا نکاح خود اپنی مرضی ماں باپ کی اجازت کے بغیر پڑھوا لیا ۔گواہوں میں ایک لڑکے کا دوست ایک وکیل اور ایک گواہ کوئی غیر تھا۔لڑکے کے دوست نے لڑکی کا مہر 50ہزار روپے اور 10تولے طلائی زیور لکھوایا۔ بوقت نکاح لڑکی بالغہ عمر16سال اور لڑکا بالغ عمر26سال تھی ۔بوقت نکاح لڑکے کے ماں باپ بھائی بہن کوئی بھی موجود نہیں تھا نہ ہی لڑکی کے ماں باپ بھائی بہن موجود تھے۔لڑکی کا باپ ویسے بھی اس وقت پردیس میں تھا اور لڑکی کے بھائی نابالغ تھے ۔
۱۔ لڑکا لڑکی کے ماں باپ ،دادا دادی پردادا پردادی وغیرہ سب مسلمان ہیں ۔
۲۔دینداری میںبھی دونوں کے خاندان دیندار قسم کے لوگ ہیں جو صرف نمازروزہ کرتے ہیں شرعی پردہ ،داڑھی کا اہتمام نہیں ہے ۔
۳۔لڑکی کا باپ اور لڑکا دونوں نوکری پیشہ اورلڑکے کا باپ دکان دار ہے ۔
۴۔لڑکی کو باپ نے کوئی بھی چیز جہیز میں نہیں دی اور لڑکا شادی کے وقت سے لے کر شادی کے ایک سال بعد تک 4ہزار ماہانہ کماتا ہے مگر حق مہرا ادا نہیں کیا گیا تھاداکرنے کی نیت ہے ۔
۵۔لڑکے کی ماں اور لڑکی کا باپ آپس میں سگے خالہ زاد ہیں ۔لڑکے کا باپ اور لڑکی کا باپ اور لڑکی کی ماں آپس میں سگے بھائی بہن ہیں یعنی لڑکا اور لڑکی آپس میں پھوپھی زاد ہیں اور ماموں زاد ہیں ۔
۶۔لڑکے کا باپ اور لڑکا زات رانا راجپوت اور لڑکے کی ماں پٹھان ہے ۔لڑکی اور لڑکی کا باپ ذات صدیقی ہے اور لڑکی کی ماں رانا راجپوت ہے ۔
لڑکا لڑکی نکاح کے بعد گھر آئے اور لڑکی کی ماں اور لڑکے کے گھر والے بہت ناراض ہوئے مگر لڑکی کے باپ کو پردیس میں اطلاع دی گئی تو انہوں نے کہا باپ کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ۔دس بارہ دن کے بعد باپ نے کہا کہ جب میں آئوں گا اور اپنی بیٹی کی خوشی کروں گا یہ نکاح درست نہیں ہے اس بات پر لڑکے نے فون پر سسر کے علماء دیوبند اور علمائے بریلوی سے مسئلہ دریافت کیا دونوں نے کے کہا آپ کا نکاح درست ہے ولی کے نہ ہونے سے کچھ نہیں ہوتا ۔اس کے بعد لڑکی کی ماں اور ماموں نے رخصتی کرادی اور باپ کو اطلاع دے دی تو وہ خاموش ہو گیا اور خیریت پوچھتارہتا تھا ۔
شادی کے سال بعد لڑکا لڑکی بریلوی سے دیوبندی بن گئے بہشتی زیور خریدی جو کہ ہر گھر کی عورتوں کے تعلیم وتربیت اور بنیادی علم سکھانے کے لیے مرتب کی گئی ہے تاکہ ناقص العقل عورتیں جاہل نہ رہیں ۔ بہشتی زیور کے چوتھے حصے میں نکاح کے بیان میں کے مسئلہ نمبر 9اور مسئلہ نمبر 10کو پڑھنے کے بعد لڑکا لڑکی اپنے کیے گئے نکاح سے بالکل مطمئن ہو گئے کیونکہ نکاح کے وقت دونوں جوان تھے اور تین گواہوں کے سامنے نکاح کیا تھا ۔12سال سے یہی مسئلے پڑھ کر مطمئن تھے اب لڑکی شرعی پردہ کرتی ہے اورلڑکا شرعی داڑھی رکھ چکا ہے ۔شادی کے دوسال بعد باپ نے پردیس سے آکر اپنی اجازت کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنے کا کہا ،لڑکے نے فون پر پھر علماء سے پوچھا علماء نے کہا پہلا نکاح ہی درست ہے لیکن باپ کی خوشی اور صلح کے لیے دوبارہ نکاح کرلیں ۔لڑکے کے چچا جو لڑکی کے ماموں ہیں ،لڑکے کی پھوپھی جو لڑکی کی ماں ہیں اور لڑکی کی بہن بالغہ ،ان تینوں کے سامنے باپ نے لڑکا لڑکی سے خود ہی ایجاب اور قبول کروایا مگر مہر کا ذکر نہیں کیا پھر کہا کہ اب تمہارا نکاح درست ہو ا کیونکہ میں نے اپنی اجازت سے کروادیا ہے بعد میں لڑکا لڑکی نے باہمی رضامندی سے اپنا حق مہر فاطمی طے کرلیا مگر ابھی روزگار نہیں ہے ۔روزگار ہو جائے تودیاجائے گا انشاء اللہ۔ اب شادی کو 15سال ہو گئے اور تین بچے ہو گئے ہیں ۔
۱۔ کیا ولی کی اجازت کے بغیر کنواری بالغہ لڑکی کا اپنی مرضی سے کیا گیا نکاح درست ہے ؟
۲۔ اگر نکاح درست نہیں ہوا تو ایسے نکاح کے نتیجے میں پیدا شدہ اولاد کے نسب کے متعلق شریعت کیا حکم دیتی ہے ؟
۳۔ کیا باپ کا دوبارہ کیا گیا نکاح درست کہلائے گا اگر ہاں تو لڑکا لڑکی باپ کے نکاح کروانے کے بعد میاں بیوی بننے اور پہلے نکاح سے نہیں بنے تھے ؟
۴۔ جن علماء سے فون پر پوچھا تھا اور انہوں نے جائز کہا تھا اور 12سال سے بہشتی زیور نکاح کا بیان میں لکھے گئے مسئلہ نمبر 9اور مسئلہ نمبر10کے متعلق آپ کیا کہیں گے جس کی وجہ سے ہم مطمئن تھے کیونکہ ہم عوامی ہیں عالم یا مفتی نہیں ہیں اور بہشتی زیور عام مسلمان عوام کے لیے مرتب کی گئی ہے ؟
۵۔ اگر ولی کے بغیر کیاگیا پہلا نکاح درست نہیں تھا اور باپ کا کیا گیا دو سال بعد والا نکاح ہی درست تھا تو وہ دوسال پہلے والا عرصہ جو میاں بیوی جیسا گزاراہے اس کی تلافی اور اس کے حل کا شریعت کیا طریقہ بتاتی ہے ؟
۶۔ اگر باپ کا دوبارہ کیا گیا نکاح بھی درست تھا تو اس کا حل کیا ہے ؟
۷۔ ہم لوگ بچپن سے ہی پڑھتے اور علماء سے سنتے آرہے ہیں تمام مسلمان برابر ہیں اور کسی کو بھی ذات پات رنگ اور نسل کی بنیاد پر برتری حاصل نہیں ہے برتری صرف اور صرف تقوی کی بنیاد پر ہے بطور مسلمان ہمیں اسی بات پر دیگر مذاہب سے فوقیت محسوس ہوتی ہے ۔تین دن پہلے بہشتی زیور میں کوئی اور مسئلہ پڑھتے ہوئے کفو والا مسئلہ پڑا تھا تو اپنے نکاح کا خیال آیا اور بہت حیرانی اور پریشانی ہورہی ہے کیونکہ اس میں نکاح کے لیے وضاحت سے تقسیم کی گئی ہے جبکہ اسلام صرف تقوی پر ہی تقسیم بناتا ہے ۔قر آن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
سالہاسال کے بعد گڑے مردے اکھاڑنے کی ضرورت نہیں ۔پہلا ہو یا دوسرا نکاح بہر حال درست ہے اور اولاد کا نسب بھی ثابت ہے ۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ نامحرم مرد وعورت کا ایک دوسرے سے بلاوجہ رابطہ وتعلق گناہ کی بات تھی جس سے توبہ واستغفار کرنا چاہیے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved