• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

والد کا اپنے کاروبار میں بیٹوں کے لیے نفع کی شرح متعین کرنا

استفتاء

ہم چار بھائی ہیں۔سب سے چھوٹا بھائی زیر تعلیم ہے۔ ہمارا کام ہول سیل شوز کا ہے۔ دکان پر والد صاحب اور تین بھائی ہوتے ہیں۔ ایک بھائی ناراض ہوکر گھر بیٹھ گیا کہ میرے اخراجات پورے نہیں ہورہے۔ اس وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑا کرنے لگا۔ اس کا مطالبہ تھا کہ مجھے میرا حصہ دے کر فارغ کردیں میں اپنا کام الگ کرنا چاہتا ہوں۔ اگر فارغ نہیں کرنا تو پانچ روپے فی جوڑا نفع لوں گا۔ کافی بحث و مباحثہ کے بعد والد صاحب نے فیصلہ کیا کہ سال میں جتنا نفع ہوگا اس میں سے گھر کے اخراجات نکال کر تینوں بھائی اور والد صاحب پچیس پچیس شیئرز کے مالک ہوں گے، مزید یہ ہے کہ تینوں بھائی اور والد صاحب کو جتنے روپوں کی ضرورت ہے وہ دکان سے لے لیں گے۔ اب سال کے بعد جس بھائی نے سب سے زیادہ خرچ لیا ہوگا دوسرے بھائی بھی اتنا ہی خرچ لے لیں گے۔ اب اگر کوئی بھائی یا والد صاحب اپنی بچی ہوئی رقم کاروبار میں لگاتے ہیں تو ان کے شیئرز بڑھ جائیں گے۔ اس فیصلے سے ناراض بھائی راضی ہوگیا۔ کیا یہ فیصلہ شریعت کی رو سے جائز ہے؟

2۔ اس فیصلے کے بعد والد صاحب نے فیصلے میں کچھ ردو بدل کر دیا وہ یہ کہ ایک بھائی کو 30 فیصد والد صاحب کو 25 فیصد اور دو بھائیوں کو 20- 20 فیصد اور زیر تعلیم بھائی کو 5 فیصد حصے کا حقدار قرار دیا گیا۔ اب دریافت یہ کرنا ہے کہ اس فیصلے سے دونوں بھائیوں کی حق تلفی تو نہ ہوگی؟ ان دونوں کو اس فیصلے پر اعتراض ہے اور دوبارہ رنجش پیدا ہوسکتی ہے۔

مثال کے طور پر: ایک سال میں 70 لاکھ روپے نفع ہوتا ہے جس میں سے گھر کے اخراجات اور زیر تعلیم بھائی پر 20 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں باقی 50 لاکھ بچتے ہیں۔ مثال کے طور پر:

5%20%20%25%30%
زیر تعلیم بھائیتیسرا بھائیدوسرا بھائیوالد صاحب پہلا بھائی
ڈھائی لاکھ روپے10 لاکھ روپے10 لاکھ روپےساڑے بارہ لاکھ15 لاکھ
اخراجات50 ہزار روپےچار لاکھ روپےچار لاکھ روپےایک لاکھ روپےچار لاکھ روپے
بقایا رقم2 لاکھ روپے6 لاکھ روپے6 لاکھ روپےساڑھے گیارہ لاکھگیارہ لاکھ روپے

اب اگر دیکھا جائے تو ایک سال بعد ہی پہلے بھائی اور والد صاحب کے شیئرز باقی دونوں بھائیوں سے تقریباً دوگنے ہوچکے ہیں۔ اب اگلے سال وہ دوسرے بھائیوں سے تقریباً دوگنے شیئرز کے مالک ہوں گے۔ اس حساب سے ہر سال پہلے بھائی اور والد صاحب کے شیئرز بڑھتے جائیں گے اور باقی دو بھائیوں کے ہر سال کم ہوتے جائیں گے اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان کے شیئرز بالکل ختم ہو جائیں گے۔ اب کیا شریعت کی رو سے یہ فیصلہ جائز ہے کہ نہیں؟

وضاحت سارا کاروبار والد صاحب کا ہے دونوں صورتوں میں والد صاحب چاہتے ہیں کہ صرف نفع تقسیم ہو۔ اصل سرمایہ ابھی تقسیم نہیں کرنا چاہتے۔ کیونکہ ان کی خواہش ہے کہ جب تک اس کاروبار سے ہر ایک کے لیے علیحدہ علیحدہ  دکان نہ بن جائے تقسیم نہ کریں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

یہ کاروبار سارا آپ کے والد کا ہے اور وہ بچوں میں نفع تقسیم کر رہے ہیں تو ایسا کرنا جائز ہے۔ تقسیم کی جو شرح انہوں نے تجویز کی ہے وہ اگر کام کی مہارت اور اوقات کار کو دیکھ کر کی ہے اور کسی کو نقصان پہنچانا غرض نہیں ہے تو جائز ہے۔

دو بھائیوں کا یہ کہنا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے شیئرز بالکل ختم ہو جائیں گے اور بڑے بھائی اور والد کے شیئرز بڑھتے جائیں گے تو یہ درست نہیں ہے کیونکہ چھ لاکھ روپے سالانہ کے جتنے شیئرز وہ جمع کرائیں گے وہ کالعدم تو نہیں ہوں گے حساب میں شامل ہوں گے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved