• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

والد کا بیٹوں کو پلاٹ ہبہ کرنا

استفتاء

مرحوم والد صاحب نے اپنی ریٹائرمنٹ کی رقم سے ایک پلاٹ (18مرلے) 1993ء میں خریدا اور پانچ بیٹوں کو ہبہ(گفٹ) کردیا  اور رجسٹری بھی کروادی۔ بیٹوں کی تفصیل  درج ذیل ہے:

****** (حیات ہیں ، شادی شدہ ہیں) 2. *** مرحوم (غیر شادی شدہ تھے اور والد صاحب کی زندگی ہی میں 1994 میں فوت ہوگئے تھے) 3. *** مرحوم(شادی شدہ تھے اور والد صاحب کی زندگی ہی میں 2014 میں فوت ہوگئے) 4. ***آصف شادی شدہ اور حیات ہیں۔5. عاجز *** شادی شدہ حیات ہیں۔

بڑے بیٹے ****** نے 2005 میں پلاٹ میں اپنا حصہ (5/1) اپنی ضرورت اور والد صاحب کی خواہش کے مطابق اس عاجز کو رعایتی قیمت پر فروخت کردیا ۔ اس خرید وفروخت میں والد صاحب بذاتِ خود موجود تھے بلکہ رجسٹری کے کاغذات میں بطور گواہ ان کے دستخط موجود ہیں جس میں یہ بھی وضاحت کے ساتھ تحریر ہے کہ وہ اپنا حصہ  اس عاجز کو فروخت کرکے  علیحدہ ہوچکے ہیں اور قبضہ بھی دیدیا۔

*** بھائی جب 2014 میں  والد صاحب کی موجودگی میں فوت ہوئے تو اس وقت بھائی کی وراثت کی تقسیم کا مسئلہ  درپیش ہوا۔ *** بھائی کی بیوہ کا  مطالبہ تھا کہ پلاٹ میں میرے شوہر کا 5/1حصہ پورا مجھے دیا جائے جبکہ والد صاحب کا مطالبہ تھا کہ والد اور والدہ بھی شرعی وارث ہیں لہذا انہیں بھی شرعی حصہ ملنا چاہیے مگر یہ مسئلہ حل نہ ہوسکا اور مسئلہ بڑھتا گیا۔

اسی دوران*** بھائی نے مسئلہ کے حل کا یہ طریقہ نکالا کہ چونکہ پلاٹ کی رجسٹری  کے کاغذ والد صاحب کے پاس موجود تھے لہذا انہوں نے مفتی حضرات سے اس بات پر یکطرفہ فتویٰ لے لیا کہ تمام بیٹوں نے والد صاحب کو پلاٹ بیچنے اور والدہ کا علاج اور حج پر بھیجنے کی زبانی اجازت دے رکھی تھی اور مزید یہ کہ چونکہ کاغذات والد صاحب کے پاس ہیں لہٰذا والد صاحب کا قبضہ ہےاور ہبہ تام نہیں ہوا اور اس فتویٰ میں کہیں ذکر نہیں کیا گیا کہ اس میں ایک بھائی(خالد)  اپنا 5/1حصہ بیچ کر پہلے ہی علیحدہ ہو گیا ہے اور دو بھائی بھی انتقال کرچکے تھے لہٰذا یہ   فتویٰ بعد میں محض اس  گمان پر لیا  گیا تھا کہ بھائیوں نے اجازت دے رکھی تھی حالانکہ فوت شدہ بھائیوں کی اجازت کا بھی کوئی ثبوت نہیں۔

مسئلہ چونکہ التواء میں ہی تھا اور  یہ عاجز اسلام آباد میں نوکری کرتا تھا اور اپنی ضرورت کے تحت ذاتی مکان یا پلاٹ خریدنا چاہتا تھا  اس لیے  والد صاحب سے درخواست کی کہ  پلاٹ کے کاغذات مجھے دے دیں تاکہ میں اپنا حصہ باقاعدہ انتقال کروالوں اور بیچ کر اپنی ضرورت میں استعمال کرلوں۔ والد صاحب نے بخوشی پلاٹ کے کاغذات میرے حوالے کردیئے، اس دوران*** بھائی بھی  موجود تھے انہوں نے اعتراض کرنا شروع کردیا کہ آپ  (والد صاحب)  نےاپنے باقی بیٹوں  کے ساتھ زیادتی کی ہے، بڑے بھائی کا حصہ اسی کو دلوایا ہے اور کافی احتجاج کیا مگر والد صاحب نے انہیں ڈانٹ کر چپ کروادیا اور کاغذوں کو میرے حوالے کردیا اس وقت *** بھائی نے قسم کھائی کہ اب میں ان معاملات میں کبھی نہیں بولوں گا آپ جانیں اور آپ کا بیٹا۔

بہر حال میں کاغذات لے کر اپنے آبائی گاؤں*** گیا اور باقاعدہ طور پر اپنے حصے کا قانونی انتقال  کروایا۔ اور اس کی فر د بھی کچھ دنوں بعد حاصل کرلی  اور اپنے کچھ دوستوں اور پراپرٹی ڈیلر کے ذمہ بھی لگا دیا کہ اگر کوئی مناسب قیمت ملے تو میرا حصہ 7.2 مرلے بیچ دیں چونکہ فرد بن جانے کے بعد رجسٹری کے کاغذ کی اہمیت اور ضرورت نہیں رہتی، لہٰذا میں نے رجسٹری  کی کاپی کرواکر اوریجنل کاغذات والد صاحب کو واپس کردیئے، والدصاحب اپنی حیات میں تمام ضروری کاغذات اپنے پاس رکھتے  رہے، تمام بچوں اور بچیوں کے نکاح نامے وغیرہ یہ سب ضروری کاغذات والد صاحب کی حفاظت میں ہی رہے۔

موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر میں نے والد صاحب کو بھائی کے سامنے دو ٹوک الفاظ میں یہ بھی  کہا کہ اگر آپ مجھ سے حصہ واپس لینا چاہتے ہیں تو میں لکھ کر دینے کو تیار ہوں مگر انہوں نے انکار کیا اس موقع پر میرا بھانجا بھی موجود تھا جو اس پر گواہ ہے۔

مفتی صاحب مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں واضح اور دو ٹوک الفاظ میں یہ بتادیں کہ پلاٹ کے یہ حصے(7.2) مرلے جن کا میرے نام  پر انتقال ہے ان کے کاغذات بھی میرے قبضہ میں تھے (والد صاحب کی موجودگی سے لیکر آج تک) مجھے مکمل بیچنے کا تصرف بھی حاصل تھا بلکہ میں نے پراپرٹی ڈیلروں کو والد صاحب کی  زندگی میں بیچنے کے لیے دیا  ہوا تھا۔(1) کیا یہ ہبہ تام ہے یا نہیں؟  کم از کم میرے حصے میں واضح کردیں کیونکہ میرے بھائی*** کا اب بھی وہی مؤقف ہے کہ چونکہ اوریجنل کاغذات والد صاحب کے قبضہ میں تھے اور کوئی بھی مکان یا کمرہ بناکر رہائش پذیر نہیں ہوا لہٰذا یہ ہبہ مکمل نہیں تھا لہٰذا یہ پلاٹ 18 مرلے ترکہ ہے ۔ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمادیں کہ جب والد صاحب نے زندگی میں عاجز کو کاغذات بھی دے دئیے تھے اور حصہ کو تعین کے ساتھ بیچنے کو دیا ہوا تھا تو (2)کیا قبضہ کے لیے گھر یا کمرہ بنانا لازمی ہے؟

تنقیح: والد صاحب نے زبانی بھی زندگی میں کئی مرتبہ کہا کہ ’’میں نے یہ پلاٹ آپ لوگوں کو دیدیا‘‘۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)مذکورہ صورت میں چونکہ والد نے بیٹوں کو زبانی یہ کہہ دیا تھا کہ’’ میں نے یہ پلاٹ آپ لوگوں  کو دیدیا‘‘ اور بیٹوں کے نام بھی لگوادیا تھا اس لیے یہ ہبہ مکمل ہوگیا تھا جس کی وجہ سے یہ پلاٹ والد کے ترکہ میں شمار نہ ہوگا لہٰذا مذکورہ صورت میں پلاٹ میں آپ اپنے حصے کے مالک ہیں جس میں آپ جو  چاہیں تصرف کرسکتے ہیں۔(2) قبضے کے لیے گھر یا کمرہ بنانا لازمی نہیں۔

شرح المجلہ (3/344) میں ہے:

تنعقد الهبة بالايجاب والقبول وتتم بالقبض ……….. واعلم أن المراد بالقبض الذي تتم به الهبة هو القبض الكامل،وهو في المنقول ما يناسبه وفي العقار ما يناسبه.فقبض مفتاح الدار قبض لها

ہدایہ (3/406) میں ہے:

وإن ‌وهبها واحد من اثنين لا يجوز عند أبي حنيفة، وقالا يصح”؛ لأن هذه هبة الجملة منهما، إذ التمليك واحد فلا يتحقق الشيوع كما إذا رهن من رجلين

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved