• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

والد کےکاروبار کو صرف سنبھالنے کی وجہ سے ملکیت نہیں آتی

استفتاء

***۔۔ والد کی وراثت کی شرعی تقسیم کے حوالے سے تحریر لکھ رہا ہوں۔

میرا نام *** ۔۔۔ جب ہوش سنبھالا تو اپنے والد محترم کو کاروبار کرتے دیکھا۔ جو ایک دکان اور ایک کارخانہ پر مشتمل ہے۔

ہم تین بھائی، ایک بہن، والدہ محترمہ ہیں، میں *** بڑا بھائی اور ***مجھ سے چھوٹا ہے، تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد میرے والد محترم نے مجھے کارخانہ میں جانے کو کہا اور کاروبار کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے، اور مجھ سے چھوٹے بھائی ***کو دکان پر جانے کو کہا، تقریپا 1994 یا 1995ء سے ہم دونوں بھائی اپنے والد صاحب کی موجودگی میں کاروبار چلاتے رہے، میں *** فیکٹری کے نظام کو چلاتا رہا اور چھوٹا بھائی ***دکان کے نظام کو چلاتا رہا، جوکہ دکان اور فیکٹری کا کاروبار مشترکہ تھا۔ فیکٹری کی زمین میری والدہ صاحبہ، بھائی ***اور میرے نام *** کے نام پر تھی اور دکان بھی میرے نام تھی، کچھ عرصہ بعد والد صاحب نے کہا کہ فیکٹری بھی *** کے نام ہےاور دکان بھی *** کے نام ہے، تو ٹیکس کافی پڑتا ہے لہذا دکان *** کے نام ہبہ کر دیتے ہیں تاکہ ٹیکس میں کچھ کمی آئے، دکان *** بھائی کے نام کرنے کے بعد بھی ہمارا کاروبار ویسے ہی چلتا رہا جیسے پہلے چلتا تھا، یعنی کہ مشترکہ الحمد للہ اس وقت تک والد صاحب تھے۔

2000ء کو ہمارا تیسرا بھائی *** پڑھائی کی غرض سے برطانیہ گیا، جہاں وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام بھی کرتا رہا، 2003ء کو والد صاحب اس کو ملنے کی غرض سے لندن گئے، 16 دسمبر 2003ء کو والد صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا جس سے ان کی طبیعت بہت زیادہ ناساز ہو گئی اوراسی حالت میں وہ پاکستان واپس آئے اور انہوں نے مجھے کو کہا کہ میں *** کے لیے کچھ رقم رکھی ہے جس سے وہ بھی اپنا کاروبار شروع کر لے، کچھ دن بعد والد صاحب وفات پا گئے، وفات کے کچھ عرصہ بعد بھائی *** کو ساری رقم ادا کر دی جو والد صاحب کہہ گئے تھے، مبلغ 27 لاکھ روپے تقریباً تھی۔ بھائی *** نے اس رقم سے کسی سے مل کر مشترکہ کاروبار شروع کیا اور کچھ سال بعد اس کو  اس کا حصہ دے کر اس کو فارغ کر دیا، اسی طرح ہم نے اپنے کاروبار میں والد صاحب کی وفات کے بعد دو دکانیں خریدی جو کہ ہماری دکان کے ساتھ لگتی ہیں۔

اب حضرت آپ سے مسئلہ یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ دکان، دکان کا مال، فیکٹری، فیکٹری کا مال، 27 لاکھ، 27 لاکھ سے منسلک اور کوئی چیز اس کی شرعاً کیا وراثت میں تقسیم ہو گی۔

بیٹے *** کا بیان

میرا نام *** ………ہے اور میں پچھلے 13 سارل سے برطانیہ کے لندن شہر میں مقیم ہوں۔ میں زمانۂٕ طالبعلمی میں ہی مارچ 2000ء میں برطانیہ سے آگیا تھا اور میرے والد صاحب نے مجھے بھیجا تھا لیکن کچھ ماہ بعد بعد ہی میں نے برطانیہ میں خود ملازمت کر کے اپنا گذارا کرنا شروع کر دیا اور اسی طرح تقریباً تین سال گذر گئے۔

دسمبر 2003ء میں میرے والد صاحب برطانیہ میں تشریف لائے اور میرے پاس 4 ماہ تک رہے اور ان دنوں میں انہوں نے مجھے کوئی اپنا کاروبار شروع کرنے کی غرض سے بات چیت کی اور اس کے لیے ان دونوں میں بات چل رہی تھی کیونکہ میں کسی شخص کے ساتھ مل کر شراکت پر کاروبار کرنے کا سوچ رہا تھا۔ جس پر والد صاحب نے کہا کہ تم کاروبار کرو اور تمہیں جتنے پیسوں کی ضرورت ہو گی وہ میں تمہیں دے دوں گا۔ پھر والد صاحب پاکستان چلے گئے کیونکہ ان کی طبیعت بہت خراب ہو گئی تھی اور وہاں پہنچ کر انہوں نے میرے بڑے بھائی جناب *** ۔۔۔ یہ ذکر کیا کہ میں نے صندوق میں کچھ پیسے رکھے ہیں اور وہ سارے پیسے *** کو دے دینا کیونکہ اس نے اپنا کوئی کاروبار شروع کرنا ہے اور یہ پیسے میں نے اس کے لیے رکھے ہیں جو کہ والد صاحب کی وفات کے بعد جناب *** نے مجھے بھجوا دیے اور میں نے برطانیہ میں اس رقم کےساتھ کاروبار شروع کر دیا جو رقم تقریباً 27 لاکھ تھی۔ اس رقم میں کچھ رقم میرے پاس بھی جمع تھی جو میں نے ملا کر کارو بار شروع کیا اور پھر جون 2004 لے کر اب تک اگست 2013 تک میں اس کاروبار کو چلا رہا ہوں۔ جس شخص کے ساتھ شراکت کی تھی وہ 2009ء میں ختم ہو گئی اور اس کو میں نے اس کا حصہ ادا کر دیا۔

اس تمام عرصے میں اس کاروبار کے لیے میں نے  ایک یا دو مرتبہ اپنے بڑے بھائیوں جناب *** اور جناب ***سے کچھ رقم ادھار لی جو کہ میں نے ان کو واپس لوٹا دی ہے۔ کاروبار کا تمام نفع و نقصان میں خود ہی چلاتا رہا اور چلا رہا ہوں اور اس وقت کاروبار کے کاغذات کا کیس عدالت میں چل رہا ہے۔ کیونکہ عمارت کے مالک نے مجھے کوئی قانونی کاغذات نہیں دیے اور کاروبار میں تقریباً 10 ہزار پاؤنڈز قرض ادا کرنا ہے، اگر عدالت کا کیس میرے حق میں آ جائے تو انشاء اللہ کاروبار کی مالیت تقریباً 80 سے 90 ہزار پاؤنڈز ہو گی۔ جب سے یہ کاروبار سے شروع کیا اس کا چلانے کے لیے میں نے اپنی ذاتی ملازمت سے کمائے ہوئے پیسے بھ اس میں لگا دیے اور حکومت برطانیہ کی طرف سے میرے بچں کو ملنے والے پیسے بھی مجبوراً اس میں ڈالنے پڑے۔

کچھ عرصہ قبل فروری 2013ء میں پاکستان میں ایک گھر خریدا، جو کہ بحریہ ٹاؤن میں ہے اور اس کی مالیت تقریباً 65 لاکھ ہے، بڑے بھائی جناب ***صاحب چند دنوں پہلے برطانیہ آئے اور ہم یہاں مقامی مفتی ہارون صاحب امام مسجد ۔۔۔ کے پاس حاضر ہوئے اور یہ تمام تفصیل ان کےسامنے رکھی جو کہ ***صاحب کے علم میں ہے۔ اور وہ بتا سکتے ہیں۔ ان تیرہ سالوں میں میں نے اپنی اور اپنی بیوی بچوں کی تمام شرعی و دنیاوی ضروریات خود اس کاروبار اور اپنی ذاتی ملازمت کی کمائی پر  رکھیں۔ ہمارے والد صاحب ایک گھر، ایک دکان اور ایک کارخانہ چھوڑ گئے تھے۔ جس کی شرعی تقسیم وراثت کی جائے جس کے حقدار ہماری والدہ محترمہ ***، ***، بہن ***، ***اور *** ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اصل جائیداد اور مال آپ کے والد کا تھا۔ اور انہوں نے آپ لوگوں کو اپنے کاروبار کو سنبھالنے کے لیے دیا، مالکانہ بنیادوں پر نہیں دیا۔ ایسی صورت میں آپ دو بھائی اپنے کاروبار میں سے اجرت لے سکتے تھے جتنی کہ کاروبار کے اعتبار سے بنتی ہے۔ اگر اتنی لیتے رہے ہوں تو فبہا ورنہ پوری کر سکتے ہیں۔ باقی ترکہ ہے جس میں 27 لاکھ کی رقم بھی شامل ہے۔ باقی رقم اور جائیداد وارثوں میں میراث کے حساب سے تقسیم ہو گی جس کی صورت یہ ہے کہ:

8ٍ                                     

بیوہ          3 بیٹے             بیٹی

8/1                 باقی

1                     7

1           2+2+2        1

کل ترکہ کے 8 حصے کر کے بیوی اور بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا اور ہر بیٹے کو 2-2 حصے ملیں گے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved