- فتوی نمبر: 18-290
- تاریخ: 21 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہمارے گاؤں کی رہائشی آبادی سے باہر کچھ فاصلے پر کھیتوں میں ایک چھوٹی سی مسجد بنی ہوئی ہے ۔اور وہاں زیادہ آبادی نہیں ہے بلکہ صرف دو یا تین گھر ہیں اس مسجد کے متصل رقبہ ہمارے دادا کی ملکیت تھا اور انہی کے نام بھی تھا۔ زبانی تقسیم ہوکر میرے والد ،تایا، چچا اور پھپھو کو مل گیا تھا ۔مگر نام تو دادا کے ہی تھا۔ میں نے اور چچا کے بیٹے نے اور پھوپھو کے بیٹے نے کہا کہ ہم نے اپنی زمین مسجد کی توسیع کے لیے دے دی جبکہ تایا کے بیٹے نے کہا کہ میں زمین میں قرآن محل ( مقدس اوراق کے لیے) بنواؤں گا ۔جب کہ ہمارے دادا کا انتقال ہوچکا ہے اور زمین دادا کے ہی نام ہے ہے ۔قابل رہنمائی مسائل یہ ہیں کہ
1۔والدین کی موجودگی میں بیٹوں کا اپنے اپنے والد سے اجازت لئے بغیر زمین مسجد کے نام وقف کرنا کیسا ہے؟ جبکہ ہر ایک کے والد نے اس کو پسند نہیں کیا کہ وہاں تو آبادی نہیں ہے پہلے پوچھ تو لیتے۔
2۔اب اس وقف شدہ زمین کو بیچ کر وہاں موجود پرانی مسجد کی تعمیر پر یا کسی بھی دوسری مسجد پر خرچ کرنا کیسا ہے؟
3۔ قرآن محل کے لئے وقف زمین بھی مسجد کو دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ یا بیچ کر کسی مسجد میں خرچ کرسکتے ہیں یا نہیں؟
برائے مہربانی رہنمائی فرما دیں
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1)کسی بھی جگہ کے وقف بننے کے لیے یہ با ت ضروری ہے کہ وقف کرنے والا اس جگہ کا مالک بھی ہو ۔ جبکہ مذکورہ زمین ابھی والد ،چچا وغیرہ کی ملکیت ہے وقف کرنے والوں کے پاس اس کا اختیار نہیں تھا۔لہذا ان کی اولاد کے وقف کرنے سے یہ زمین وقف نہیں ہوگی۔
2)اگرچہ مذکورہ زمین شرعاًوقف نہیں ہوئی لیکن چونکہ ارادہ خیر کر لیا گیا ہےاور اس ارادے پر اصل مالکان کو بھی اعتراض نہیں ہے لہذا بہتر ہے کہ اس جگہ کو بیچ کر کسی کار خیر مسجد وغیرہ میں لگا دیا جائے۔
3)اس کا جواب بھی وہی ہے جو نمبر 2 کا ہے۔
الفتاوى الهندية (2/ 353)میں ہے:
ومنها الملك وقت الوقف حتى لو غصب أرضا فوقفها ثم اشتراها من مالكها ودفع الثمن إليه أو صالح على مال دفعه إليه لا تكون وقفا كذا في البحر الرائق رجل وقف أرضا لرجل آخر في بر سماه ثم ملك الأرض لم يجز وإن أجاز المالك جاز عندنا كذا في فتاوى قاضي خان ولو أوصى الرجل بأرض فوقفها الموصى له بها في الحال ثم مات الموصي لا تكون وقفا كذا في فتح القدير
© Copyright 2024, All Rights Reserved