- فتوی نمبر: 32-09
- تاریخ: 22 مارچ 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > زبردستی طلاق کہلوانا
استفتاء
میرا سوال یہ ہے کہ میرا اپنی بیوی کے ساتھ کچھ وجوہات پر کچھ گھریلو مسئلہ تھا، بات خاندان والوں تک پہنچی جس کی وجہ سے کچھ مسائل ہو گئے اور میرے والدین نے مجھے کہا کہ اپنی بیوی کو طلاق دو نہیں تو ہم تمہیں بخشیں گے نہیں اور حالات کی وجہ سے میں شدید ذہنی دباؤ میں تھا جس کی وجہ سے میں نے ان کی بات ماننے کا اقرار کر لیا کیونکہ انہوں نے مجھے کہا تھا کہ ہم تمہیں آخرت میں بھی نہیں بخشیں گے اور دنیا میں بھی لاتعلقی کا اظہار کریں گے پھر اگلے دن جب میں آفس چلا گیا تو میرے والد صاحب نے مجھے کہا کہ آفس کا کام جلدی سے ختم کرو ہم نے وکیل کے پاس جانا ہے۔آفس پہنچ کر میں نے بہانہ بنانا شروع کر دیا کہ آج بہت کام ہے کل چلیں گے کیونکہ میں وکیل کے پاس جانا نہیں چاہتا تھا لیکن میرے والد صاحب آفس آگئے اور مجھے زبردستی ساتھ لے گئے، راستے میں بھی میں نے بہت اصرار کیا کہ ایک بار سوچ لیں لیکن وہ نہ مانے جب ہم وکیل کے پاس پہنچے تو وہاں پر وکیل نے اپنے اسسٹنٹ کو طلاق کے اسٹام پیپر کے لیے بھیجا جبکہ اسٹام پیپر والے نے کہا کہ ابھی قانون یہ کہتا ہے کہ ایک وقت میں ایک طلاق ہو سکتی ہے تو یہ سن کر میں دل میں خوش ہوا کہ ابھی چلو صرف ایک طلاق ہوگی باقی بعد میں دیکھا جائے گا لیکن بعد میں وکیل نے میرے والد کی موجودگی میں مجھ سے طلاق ثلاثہ نامی ایک کاغذ پر سائن کروایا جس کا مجھے علم نہیں تھا کہ یہ کیا ہے میں نے اس کے کہنے پر اس طلاقنامے پر سائن کر دیے اور انگوٹھا بھی لگایا بعد میں جب میں اس پر سائن کر چکا تو میں نے اپنے بھائی سے پوچھا کہ ایک طلاق ہوئی یا تین اس نے مجھے بتایا کہ اب تین ہو چکی ہیں اس چیز کا مجھے ٹھیک سے علم نہیں تھا میں دل اور اپنی نیت میں صرف ایک سمجھ رہا تھا لیکن وکیل نے طلاق ثلاثہ پر تین لکھ کر سائن کروا لیا دوسرا میں اپنی بیوی کو طلاق نہیں دینا چاہتا تھا جو بھی کیا شدید دباؤ اور والدین کے اصرار پر کیا۔ برائے مہربانی میری رہنمائی کریں کہ میری طرف سے تحریر کروائی گئی طلاق ایک مانی جائے گی یا تین؟ حالانکہ مجھے ٹھیک سے علم نہیں تھا۔
شوہر کا بیان حلفی:
میں****** اللہ پاک کو سچے دل سے حاضر ناظر جان کر حلف اٹھا کر کہتا ہوں کہ میری آنکھوں کے سامنے سے طلاق نامے کی تحریر گزری، اس کو میں نے اپنی انکھوں سے دل میں پڑھا تھا لیکن زبان پر ادا نہیں کیا اس کے علاوہ میں نے یہ عمل صرف اور صرف اپنے والدین کے کہنے پر شدید قسم کی مجبوری میں کیا حالانکہ میری ذاتی کوئی بھی رضامندی نہیں تھی اس میں۔ کیونکہ اگر میں ایسا نہ کرتا تو مجھے پورا یقین تھا کہ مجھ سے میرے والدین ہر طرح کی لا تعلقی کر لیتے اور مجھے اس بات کا بھی شدید خوف تھا کہ وہ مجھے روز محشر بھی نہ بخشیں گے جس کی وجہ سے میں شدید خوف کا شکار ہو چکا تھا اور میں ڈر چکا تھا اور میرے والدین نے جو بھی مجھ سے کہا وہ ہرحال میں وہی سب کرتے میرے ساتھ جس کا انہوں نے مجھے کہا تھا جیسا کہ ہر طرح کی لا تعلقی اس کے علاوہ یہ بھی کہا تھا انہوں نے کہ میرا جو بھی بہن بھائی مجھ سے تعلق رکھے گا وہ اس سے بھی لاتعلقی کر لیں گے۔
طلاقنامے کی عبارت:
…………………من مظہر بقائمی ہوش وحواس خمسہ بلا جبر واکراہ اپنی آزاد مرضی آج مؤرخہ13 مئی 2024ء کو تحریری طور پر رو برو گواہان حاشیہ مسماۃ ***** کو طلاق ثلاثہ طلاق، طلاق، طلاق دیکر اپنی زوجیت سے علیحدہ کرتا ہوں…………..
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً آپ کے والد نے آپ کو قطع تعلقی کی دھمکی دی تھی اور بہن بھائیوں میں سے جو بھی آپ کے ساتھ تعلق رکھے گا اس سے بھی قطع تعلقی کی دھمکی دی تھی اور آپ کو بھی غالب گمان تھا کہ اگر آپ نے طلاقنامے پر دستخط نہ کیے تو آپ کے والد صاحب آپ سے قطع تعلقی کرلیں گے اس لیے آپ نے دباؤ میں آکر دستخط کیے تھے اور آپ کی طلاق کی نیت بالکل نہیں تھی تو آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں چونکہ والد نے قطع تعلقی کی دھمکی دی تھی اور والد صاحب کی دھمکی کی وجہ سے رضا معدوم ہوجاتی ہے لہٰذا مذکورہ صورت میں اکراہ ثابت ہوگیا اور کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ مکرہ کی تحریری طلاق واقع نہیں ہوتی۔
درمختار مع ردالمحتار (427/4) میں ہے:
(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ………..(ولو عبدا أو مكرها)
و في الشامية تحته: وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا، كذا في الخانية،
عالمگیری (1/379) میں ہے:
رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته كذا في فتاوى قاضى خان.
درمختار مع ردالمحتار (217/9) میں ہے:
الإكراه (هو لغة حمل الإنسان على) شيء يكرهه وشرعا (فعل يوجد من المكره فيحدث في المحل معنى يصير به مدفوعا إلى الفعل الذي طلب منه) وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ. (وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير (أو لحق الشرع)
(قوله: في الحال) كذا في الشرنبلالية عن البرهان والظاهر أنه اتفاقي إذ لو توعده بمتلف بعد مدة، وغلب على ظنه إيقاعه به صار ملجئا تأمل. لكن سيذكر الشارح آخرا أنه إنما يسعه ما دام حاضرا عنده المكره وإلا لم يحل تأمل.
عزیزالفتاوی(492) میں ہے :
سوال : مسماۃبیگم جو کہ بندہ کے نکاح میں تھی والد صاحب کو چند آدمیوں نے کہاکہ اس کو (اپنے لڑکے کو)ا س سے ( اس کی بیوی سے ) علیحدہ کرا دیجئے، بندہ نے باادب والد صاحب کو یہ جواب دیا کہ میری حالت اس کو ترک کرنے سے ابتر ہوجائے گی، والد نے کہا تجھ سے کبھی نہ بولوں گا اس پر بندہ نے دو روپیہ کے کاغذ کا اسٹام خریدا، ایک پر طلاق نامہ لکھا گیا اور دوسرے پرمہر نامہ ، اس وقت میری حالت ابتر او ر خراب تھی مجھ کوخبر نہ تھی کہ کس حالت میں ہوں مجھ پر صدمہ پڑا ہوا تھا کبھی روتا تھا کبھی خاموش ہوجاتا تھا،یہ بات قسمیہ عرض ہے جہاں تک مجھ کو خیال ہے اس حالت میں مجھ سے لفظ طلاق دو مربتہ نکل گیا تو یہ جائز ہے یا نہیں ؟
(الجواب)کاغذ کی لکھی ہوئی طلاق تو اس حالت عدم رضا میں نہیں واقع ہوئی مگر زبان سے دو مرتبہ طلاق کا لفظ نکلا اس سے دو طلاق رجعی واقع ہوگئی ، عدت کے اندر رجوع کرنا درست ہے ۔ فقط واﷲاعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved