- فتوی نمبر: 5-233
- تاریخ: 26 نومبر 2012
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان
استفتاء
ہم تین بھائی اور سات بہنیں ہیں۔ ہمارے والد صاحب کا انتقال 1990 میں ہوا تھا اس وقت ان کے ترکے میں درج ذیل اشیاء شامل تھی: (۱) آٹھ لاکھ کا سرمایہ، (۲) دکان جس کی مالیت آٹھ لاکھ تھی، (۳) مکان جو کہ خستہ حال تھا۔ بعد میں اس کو مشترکہ پیسوں سے بھائی نے تین منزلہ تعمیر کر کے فروخت کر دیا۔
شروع میں دو بھائیوں نے دکان پر کام شروع کیا پھر ایک فوت ہوگیا اور دوسرا بھائی اس کی جگہ پر آگیا۔ اس دوران گھر کے اخراجات بھی اسی دکان سے چلتے رہے ، 3 بہنوں کی شادیاں بھی اسی میں سے ہوئیں۔ تین کی شادی والد نے زندگی میں ہی کر دی تھی۔ ایک بہن ابھی تک کنواری ہے۔ اس وقت مذکورہ کاروبار سے بنائے ہوئے درج ذیل مالیت کے اثاثہ جات موجود ہیں: (۱) 2 عدد مکانات جن کی مالیت تقریبا ایک کروڑ تیس لاکھ ہے۔ (۲) ترکے کی دکان جس کی موجودہ مالیت ایک کروڑ بیس لاکھ ہے۔ (۳) دکان پر موجود سرمایہ جس کی مالیت قرض منہا کر کے اسی لاکھ روپیہ ہے۔ (۴) دو عدد گودام جن کی مالیت پینتالیس لاکھ روپے ہے۔ (۵) ایک عدد گاڑی جس کی قیمت پانچ لاکھ روپے ہے۔
مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں سوال یہ ہے کہ ہمارے درمیان وراثت کی تقسیم کرتے ہوئے تمام لوگوں کے حصے برابر ہوں گے یا کاروبار کرنے والے بھائیوں کا حصہ زیادہ ہوگا۔ نیز تقسیم موجودہ سارے سرمائے کی ہوگی یا والد صاحب کی وفات کے وقت موجود سرمائے کی ہوگی؟ جو کہ تقریبا 45 لاکھ تھا۔ جن بہنوں کی شادی کی گئی ان کے اخراجات ان کے حصے سے منہا کیے جائیں گے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جب آپ کے والد صاحب کا انتقال ہوا تھا اس وقت جو ورثاء موجود تھے وہ اپنے اپنے حصوں کے بقدر میراث میں شریک تھے۔ بعد میں وہی سرمایہ کاروبار وغیرہ میں استعمال ہوا اور اس سے نفع آیا ہے یا اس کی ویلیو بڑھی ہے، اس لیے اضافے میں بھی سب ورثاء اپنے اپنے شرعی حصوں کے بقدر شریک ہیں۔ اس لیے سرمائے کی تقسیم موجودہ حساب سے ہوگی۔
البتہ جن بھائیوں نے اتنے عرصے میں کام کیا ہے انہیں اگر وہ چاہیں تو اتنے عرصے کا اپنی محنت کا عوض علیحدہ سے ملے گا۔ ہمارے ہاں چونکہ بہنوں یا بیٹیوں کو شادی پر دی جانے والی چیزیں یا اخراجات بطور ہبہ کے دینے کا رواج ہے اس لیے جب تک اس کے خلاف صراحت نہ کی گئی ہو اسے ہبہ پر ہی محمول کیا جائے گا۔ اس لیے بہنوں کے شادی پر اخراجات منہا نہیں کیے جائیں گے۔
قال في الشامية: يقع كثيراً في الفلاحين و نحوهم أن أحدهم يموت فتقوم أولاده على تركته بلا قسمة و يعملون فيها من حرث و زراعة و بيع و شراء و استدانة و نحو ذلك و تارة يكون كبيرهم هو الذي يتولى مهماتهم و يعملون عنده بأمره و كل ذلك على وجه الإطلاق و التفويض ( إلى أن قال) فإذا كان سعيهم واحدا و لم يتميز ما حصله كل واحد منهم بعمله يكون ما جمعوه مشتركاً بينهم بالسوية و إن اختلفوا في العمل و الرأي كثرة و صواباً كما أفتى به الخيرية. ( 4/ 308، سعید)
نوٹ: جس بھائی کا انتقال ہوچکا ہے اگر اس کی بیوہ و اولاد ہو تو اس کا حصہ ان کو ملے گا۔ فقط و اللہ تعا
© Copyright 2024, All Rights Reserved