- فتوی نمبر: 33-296
- تاریخ: 07 جولائی 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
زید مرحوم کی وفات 2002 میں ہوئی،ان کی اہلیہ ان کی وفات سے قبل ہی فوت ہوگئی تھی۔ انہوں نے وراثت میں پانچ مرلہ مکان چھوڑا جس کی مالیت 65 لاکھ ہے ۔زید کے ورثاء میں تین بیٹے( خالد، بکر ، سمیع ) اور دو بیٹیاں (زینب، فاطمہ) ہیں۔
ان میں سے فاطمہ کی وفات 2007 میں ہوئی، فاطمہ کے ورثاء میں شوہر ،تین بیٹیاں( رخسانہ ، بتول ، حفصہ) ہیں۔پھر صفیہ بی بی کے شوہر کا انتقال 2010 میں ہوا۔جن کے ورثا میں تین بیٹیاں اور چچا زاد بھائی ہیں .شوہر کے والدین پہلے ہی انتقال کر گئے تھے اور شوہر کا کوئی بہن بھائی ان کی وفات کے وقت حیات نہیں تھا۔ پھر زید کے دوسرے بیٹے (بکر) کا انتقال اگست 2024 میں ہوا ، بکر کے ورثاءمیں ایک بیوہ( زرینہ )ایک بیٹا (عبداللہ) اور ایک بیٹی (رابعہ) بکر ہے۔
فاطمہ کی بیٹی بتول کا انتقال 2024نومبر میں ہوا، بتول کے ورثاءمیں شوہر (عزیر )تین بیٹے(سلمان، رضوان ، علی) اور ایک بیٹی (مہوش)ہے ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں زید مرحوم کی وراثت کے 8064 حصے کیے جائیں گے جن میں سے 2040حصے (25.3فیصد فی کس) مرحوم کے دونوں بیٹوں( خالد، سمیع) میں سے ہر ایک کو، 1020حصے (12.65فیصد) مرحوم کی بیٹی( زینب ) کو ،280 حصے( 3.47فیصد فی کس) مرحوم کی بیٹی (فاطمہ مرحومہ) کی دونوں بیٹیوں( رخسانہ، حفصہ) میں سے ہر ایک کو ،84 حصے (1.04فیصد) مرحومہ کے شوہر کے چچا زاد بھائیوں میں برابر تقسیم ہو ں گے۔
اور255 حصے (3.16فیصد) مرحوم بکر کی بیوہ کو،1190 حصے (14.76 فیصد) مرحوم بکرکے بیٹے (عبداللہ) کو ،595 حصے(7.38فیصد) مرحوم بکر کی بیٹی رابعہ کو،70 حصے(0.87 فیصد) فاطمہ کی بیٹی بتول مرحومہ کے شوہر کو، 60حصے (0.74فیصد فی کس) مرحومہ بتول کے بیٹوں میں سے ہر ایک کو اور 30 حصے(0.37فیصد) مرحومہ بتول کی بیٹی کو ملیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved