- فتوی نمبر: 33-293
- تاریخ: 07 جولائی 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص زید کا 2012 میں انتقال ہوا۔ مرحوم کے والدین ان کی زندگی میں وفات پاچکے تھے اور ان کی اہلیہ کا انتقال بھی زید مرحوم کی زندگی میں ہوچکا تھا۔ ان کے ورثاء میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں ابھی وراثت تقسیم نہیں ہوئی تھی کہ اس دوران مرحوم اکرم کے بیٹے خالد کا 2021 میں انتقال ہو گیا، خالد کے ورثاء میں تین بیٹے اور ایک بیوی تھی پھر وراثت تقسیم نہیں ہوئی تھی کہ اس دوران مرحوم اکرم کے دوسرے بیٹے بکر کا بھی انتقال ہو گیا ، بکر کے ورثاء میں تین بھائی اور دو بہنیں تھیں۔
یہ واضح رہے کہ بکر کی حقیقی اولاد نہ تھی اور ان کی اہلیہ کا انتقال ان کی زندگی میں ہو چکا تھا ۔سوال یہ ہے کہ:
1۔ زید صاحب مرحوم نے تین کروڑ روپے ترکے میں چھوڑے ۔اس رقم کی تقسیم کیسے ہوگی؟
2۔ بکر مرحوم نے اپنے ایک بھتیجے کو منہ بولا بیٹا بنایا ہوا تھا جس کا نام عمر بن خالد ہے شاہد مرحوم کی وفات کے بعد وہ اپنی ماں کی پرورش میں ہے اور عمر قانونی کاغذات میں بکر کا حقیقی بیٹا ہے اور بکر مرحوم نے اپنی زندگی میں کہا تھا کہ “میرے مرنے کے بعد میرا سب کچھ عمر کا ہے” اور اس بات پر گواہ بھائی بہنیں اور ہم بھتیجے بھتیجیاں ہیں۔
3۔ زید صاحب مرحوم کے ایک بیٹے جن کا نام حمزہ ہے اور وہ حیات ہیں انہوں نے اپنی اہلیہ کے انتقال کے بعد اپنے بھائی خالد مرحوم کی اہلیہ سے نکاح کر لیا تھا جن کا نام زینب ہے اب زینب حمزہ کی منکوحہ ہے تو زید مرحوم، خالد مرحوم اور بکر مرحوم کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
زید مرحوم کے ترکہ( تین کروڑ ) کے 144 حصے کیے جائیں گے جن میں سے زید مرحوم کے پانچ بیٹوں میں سے ہر بیٹے کو 24 حصے(16.67 فیصد فی کس) یعنی 50,00000(پچاس لاکھ) روپے اور دو بیٹیوں میں سے ہر بیٹی کو 12 حصے (8.33 فیصد فی کس) یعنی 25,00000 (پچیس لاکھ) روپے ملیں گے۔
خالد اور بکر چونکہ وفات پا چکے ہیں لہذا ان کی وراثت آگے ان کے ورثاء میں یوں تقسیم ہوگی کہ خالد مرحوم کے 24 حصوں (پچاس لاکھ) میں سے 7،7حصے(29.17 فیصد فی کس) یعنی 14,58,333.33(چودہ لاکھ اٹھاون ہزار تین سو تینتیس) روپے خالد کے تین بیٹوں میں سے ہر بیٹے کو اور 3 حصے(12.5فیصد) یعنی 6,25000 (چھ لاکھ پچیس ہزار) روپے خالد کی بیوہ کو ملیں گے۔
نوٹ: بکر مرحوم نے چونکہ اپنی زندگی میں یہ کہا تھا کہ “میرے مرنے کے بعد میرا سب کچھ عمر کا ہے” یہ وصیت ہے اور وصیت ایک تہائی مال میں تو جاری کرنا ضروری ہوتی ہے باقی دو تہائی مال ور ثاء کا حق ہے وہ اپنی رضا مندی سے عمر کو دینا چاھیں تو دے سکتے ہیں۔لہٰذا بکر مرحوم کو جو حصہ (50 لاکھ روپے) زید مرحوم کے ترکے (3 کروڑ) میں سے ملا اور جو بکر مرحوم کا اگر اپنا بھی کوئی ترکہ ہے سب کے مجموعے میں سے تیسرا حصہ (3/1) عمر کو بطور وصیت دیا جائے گا اور باقی دو حصے ورثاء میں اس طرح تقسیم ہوں گے کہ باقی ترکہ کے آٹھ حصے کیے جائیں گے جن میں سے تین بھائیوں میں سے ہر بھائی کو 2 حصے (25 فیصد فی کس) اور دو بہنوں میں سے ہر بہن کو 1 حصہ (12.5 فیصد فی کس) ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved