• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

والد کو گھر کی تعمیر کے لیے دیے ہوئے پیسے وراثت سے منہا کرنا

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ایک گھر باپ بیٹوں نے مل کر بنایا ہےیعنی اس کو تعمیر کرنے میں پیسے لگائے ۔اب والد کی وفات کے بعد پورا گھر وراثت میں شمار ہو گا یا بیٹے اپنی لگائے ہوئے پیسے منہا کریں گے ؟

تنقیحات:سائلہ بیٹے کی بیوی(مرحوم کی بہو ) ہے۔ مرحوم کو وراثت میں 10 لاکھ ملے تھے جس سے جگہ خرید کر چار دیواری کی گئی باقی تعمیر دو بیٹوں کے پیسوں سے ہوئی ۔ جب تعمیر کا خرچہ دیا گیا تو بیٹے الگ دوسرے شہر میں اپنے بیوی بچوں سمیت رہتے تھے ۔ اور والدین کو خرچہ بیٹے ہی دیا کرتے تھے ۔

بیٹے کا موقف :

تعمیر کا خرچہ دیتے وقت کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا اور نہ ہی پیسے واپس لینے کی نیت تھی ۔ بس والد صاحب نے گھر بنانے کے لیے پیسے مانگے تو ہم دو بھائیوں نے پیسے دے دئیے ۔دوسرے بھائی کا بھی یہی موقف ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں سارا گھر وراثت میں شمار ہوگا اور شرعی حصوں کے اعتبار سے ورثاء میں تقسیم ہوگا ۔ بیٹوں نے جو تعمیر کا خرچہ کیا وہ منہا نہیں کیا جائے گا ۔

توجیہ: زمین چونکہ والد صاحب نے اپنے پیسوں سے خریدی اس لیے وہ پوری وراثت میں شمار ہو گی ۔ اسی طرح تعمیر کا خرچہ کرتے وقت چونکہ بیٹوں کی نیت والد صاحب سے یہ رقم واپس لینے کی نہ تھی اور نہ ہی ایسا کوئی معاہدہ ہوا تھا بلکہ بیٹوں نے بیٹے ہونے کی حیثیت سے اپنے والد کے ساتھ نیکی اور احسان والا معاملہ کیا تھا جس کا اجر ان شاء اللہ ،اللہ تعالیٰ سے بیٹوں کو ملے گا لہذا تعمیر بھی والد صاحب کی شمار ہو گی اور شرعی حصوں کے اعتبار سے ورثاء میں تقسیم ہو گی۔

تنقیح الفتاویٰ الحامدیہ (2/391) میں ہے:

المتبرع لايرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير امره

شامی( 6/353 )میں ہے :

في القنية و غيرها: لو أنفق ماله على الصغير ولم يشهد فلو كان المنفق أباً لم يرجع.

شامی( 6/353 )میں ہے :

قلت :والمراد بالصيرفي من يستدين منه التجار ويقبض لهم فيرجع بمجرد الأمر للعرف بأن ما يؤمر بإعطائه هو دين على الآمر، بخلاف غير الصيرفي فلا يرجع بقوله أعطِ فلانا كذا إلا بشرط الرجوع .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved