- فتوی نمبر: 1-169
- تاریخ: 31 مارچ 2007
- عنوانات: خاندانی معاملات > ہبہ و ہدیہ
استفتاء
ایک مکان ہے رقبہ ایک کنال ۔مالیت تقریباً ایک کروڑ روپے ۔والد مرحوم کو L.D.Aسکیم میں الاٹ ہوا۔والد کی حیثیت مکان بنانے کی نہیں تھی ۔لہذا میرے بڑے بھائی مرحوم جو کہ سعودی عرب میں ملازمت کرتے تھے والد نے ان سے کہا کہ وہ پیسے دے دیں اور مکان بنوالیں ۔انھوں نے مکان بنایا اور بلا شرکت غیرے تعمیر کرایا ۔انھوں نے زمین کی قیمت بھی ادا کی تھی۔میرے بڑے بھائی مرحوم نے زندگی میں ہمیشہ اسکی مخالفت کی اورکہا کہ مکان سب کا ہے ۔ والد کے انتقال کے بعد انھوں نے کہا کہ مکان کلیة ان کے نام کر دیا جائے ۔والدہ مرحومہ نے اسکی مخالفت کی اور کہا کہ مکان تینوں بھاےﺅں کا ہے اور جس کا اقرار انھوں نے بہنوں اور دوسرے لوگوں کے سامنے کیا ۔بعد میں میرے بڑے بھائی کا بھی انتقال ہو گیا ۔بھابھی یہ چاہتی ہیں کہ مکان دو بقیہ بھائیوں اور بھائی مرحوم کے لواحقین کے درمیان مساوی تقسیم ہو ۔
والد مرحوم نے بقیہ دو بھائیوں سے یہ تحریر بھی لکھوائی تھی کہ ان کے اس مکان پر اور کسی بھی وارث کا کوئی حق نہ ہو گا ۔ اور گواہان میں بقیہ دو بھائیوں سے دستخط بھی لے لئے تھے ۔قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں کہ اسکی تقسیم والد کے وارثوں میں ہو گی یا یہ مکان کلیة بھائی کے وارثوں کا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
یہ مکان کلیة آپ کے مرحوم بھائی کے وارثوں کا حق ہے ۔آپ دو بھائیوں کا یا بہنوں کا اس میں کوئی حق نہیں ہے ۔وجہ یہ ہے
1۔****نے اپنے والد کے کہے کے مطابق زمین کی قیمت بھی ادا کی اور اس پر اپنا ذاتی مکان بنوایا جو بلا شرکت غیرے تھا لہذ**کی مکان میں ملکیت تو ثابت ہے بھائی نے اس کو اپنی ذاتی جائیداد سمجھا اس کی تائید سوال سے ہو جاتی ہے۔
2۔ بھائی کا یہ کہنا کہ مکان سب کا ہے اس سے اس مکان میں دوسروں کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی ۔ملکیت آتی تو ہدیہ کرنے سے آتی اور ہدیہ انھوں نے نہیں کیا ۔
3۔ والدہ کا کہنا کہ مکان تینوں بھائیوں کا ہے یہ بات بھی بے اثر ہے محض والدہ کے کہنے سے ایک کی ملکیت ختم ہو کر تین کیلئے ثابت نہیں ہو گی۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved