- فتوی نمبر: 3-148
- تاریخ: 02 مارچ 2010
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
استفتاء
میرے والد صاحب کراچی میں رہائش پذیر تھے ۔ ہم چاربہن بھائی ہیں ۔ بہنیں بڑی ہیں جو *** ،*** ہیں اور بھائی چھوٹے ہیں جو *** ہیں۔سب شادی شدہ ہیں والدہ حیات ہیں، میرے والد صاحب NESPAK کمپنی میں ملازمت کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی ملازمت کے دوران کمپنی کی سوسائٹی میں لاہور میں ایک پلاٹ بک کرایا ، کیونکہ میری شادی لاہور میں ہوناتھی،1985 میں والدصاحب نے بک کرایا ، میری شادی 1986 میں ہوئی ، انہوں نے یہ پلاٹ اپنے نام سے بک کرایا تھا او رسب گھر والوں اور آفس میں کہاکہ یہ میں نے اپنی بیٹی کے لیے لیاہے ، اس کے بعد وہ اس کی قسطیں جمع کراتے رہے، کیونکہ والدصاحب کراچی میں رہائش رکھتے تھے اس لیے پلاٹ کے سلسلے میں لاہور آفس والے سے کراچی کے گھر کے ایڈریس پر خط وکتابت کرتے تھے، ابھی تک پلاٹ کی الاٹمنٹ بھی نہیں ہوئی تھی کہ 1995 میں والد صاحب کا انتقال ہوگیا ، والد صاحب کی وفات کے بعد جب کراچی میں آفس کی طرف سے روپیہ جمع کرانے کا لیٹر آیا تو والدہ نے کہا کہ یہ پلاٹ *** کے لیے لیاتھا اس لیے اب باقی سارا روپیہ تم خود جمع کرواؤ، اس لیے ہم نے والدہ کے کہنے سے اس پلاٹ کو اپنا سمجھ کر باقی روپیہ جمع کرایا جب بھی وہ قسط کا روپیہ مانگتے رہے وہ میرے شوہر اپنے پاس سے جمع کرواتے رہے ، کیونکہ والدہ کا حکم تھا جب میرے شوہر روپیہ جمع کرانے جاتے تو آفس والے ان سے کہتے تھے کہ نظام صاحب کا انتقال ہوچکا ہے اس لیے اب اسے اپنے نام ٹرانسفر کرائیں ۔والد کے انتقال کے 13سال بعد یہ پلاٹ میرے نام ٹرانسفر کردیاگیا۔ میرے والد کا کراچی میں اپنا مکان ہے جس میں ہم سب کی وراثت ہے ، میرے گھروالوں کا کہنا ہے کہ تمہیں کیونکہ پلاٹ دے دیا ہے اس لیے اس مکان میں سے تمہیں کوئی حصہ نہیں ملے گا، میں یہ دریافت کرناچاہتی ہوں کہ میرے والد نے پلاٹ کے لیے ایک لاکھ روپیہ دیا تھا کیا صرف اس روپے پر وراثت لاگو ہوگی یا جو روپیہ میرے شوہر نے جمع کروایا ہے اس میں سے بھی سب کو ( میرے بہن بھائیوں کو) حصہ ملے گا، کیونکہ میرے شوہرنے اڑھائی لاکھ جمع کروایا ہے، جب ہم نے اپنی والدہ کے کہنے پر پلاٹ کی اقساط جمع کرائیں ، والدہ نے ہم سے ادھار لینے کی کوئی بات نہیں کی تھی اور نہ ہی ہم نے ادھار کے طور پر رقم جمع کرائی تھی ، میری والدہ مسلسل یہی کہتی رہیں کہتی کہ یہ پلاٹ نظام صاحب ( میرے والد) نے *** کے لیے لیا تھا اس لیے اسے خود روپے جمع کرانا ہیں، اس بات کا علم میرے بھائیوں ،بہن ، بہنوئی اور چچا اور آفس والوں کو بھی تھا، اس وقت پلاٹ کی مالیت جمع کرائی گئی رقم کے برابر تھی ، اتنے عرصے میں میرے بھائیوں اور بہن نے کبھی نہیں کہا کہ تم روپیہ جمع کیوں کرارہی ہو کیونکہ اگر ان کے خیال میں اس میں سب کا حصہ تھا تو سب کو اس کی اقساط کا روپیہ بھی جمع کرانا چاہئے تھا ، اب جبکہ پلاٹ کی مالیت 30 لا کھ ہوگئی ہے تو میرے گھروالے کہتے ہیں کہ اس میں سب کا حصہ ہے کیونکہ یہ والد صاحب کے نام تھا، کیا یہ بات مجھے دھوکہ دینے کے زمرے میں نہیں آتی؟
میرے والد صاحب کا کراچی میں مکان ہے جس کی مالیت ایک کروڑ روپے ہے میرے گھروالے مجھے اس میں سے حصہ نہیں دے رہے حالانکہ اس میں سب بھائی بہنوں کی وراثت ہے مجھے جو پلاٹ دیا گیا ہے اس میں والد نے ایک لا کھ روپے جمع کرائے تھے باقی ڈاھائی لاکھ میرے شوہر نے جمع کرائے ، وراثت تو باپ کی چھوڑی ہوئی جائیدا دپر ہوتی ہے ، کیا میرے شوہر کے روپے پر میرے بہن بھائیوں کاحق ہے؟ اگر میرے شوہر روپیہ جمع نہ کراتے تو پلاٹ کینسل ہوجاتا اور کسی کے کچھ ہاتھ نہ آتا،برائے مہربانی اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں پلاٹ کے سات حصے کیے جائیں گے جن میں پانچ حصے جن کے پیسے *** کے شوہر نے ادا کیے تھے وہ *** کے شوہر کے ہونگے ، ان میں دیگر ورثاء کا حق نہیں ہوگا، جبکہ باقی دوحصے والد صاحب کے تھے جو ان کی وفات کے بعد ترکہ میں شامل ہونگے ، اور ان دوحصوں میں پھر *** سمیت تمام ورثاء اپنے اپنے شرعی حصوں کے بقدر شریک ہونگے۔ اسی طرح کراچی والا مکان بھی ترکہ میں شامل ہوگا جس میں *** سمیت تمام ورثاء اپنے اپنے حصوں کے بقدر شریک ہونگے۔ کسی بھی وارث کو اس کے شرعی حق سے محروم کرنا جائز نہیں۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved