• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

والد صاحب کا بیٹوں کو گھر دینا اور بیٹیوں کو محروم کرنا

استفتاء

آج سے تقریبا پچیس تیس سال پہلے ہمارے والدین نے اپنی آبائی جائیداد بیچ کر ایک پونے سات مرلے کا گھر لاہور میں خریدا جس کے ملکیتی کاغذات میرے بڑے بھائی(***) نے اپنے نام بنوائےجس کی وجہ یہ تھی کہ والد صاحب کو اتنی معلومات وغیرہ نہیں تھیں اور والد صاحب کے شناختی کارڈ کا بھی مسئلہ تھا ۔مکان  بھائی کے نام تھا لیکن سمجھا والد صاحب کا ہی جاتا تھا ۔  وقت گزرتا رہا یہاں تک میری والدہ کی وفات کے بعد میرے والد صاحب نے اپنی حیات میں ہی وہ گھر چار بیٹوں  میں تقسیم کر دیا۔دو بیٹوں (*** اور *** )کو زمین کا حصہ متعین کر کے قبضہ دے دیا اور چھوٹے دو بیٹے (***[سائل]   اور ***)والد صاحب کے ساتھ مشترکہ رہتے تھے البتہ والد صاحب کی حیات میں ہی ان دو بیٹوں (*** اور ***)کے نام بھی کر دیا گیا ۔ ۔جب مجھے [سائل کو]  گھردیا گیا تو میں نے والد صاحب کی زندگی میں ہی اس پر زمینی منزل تعمیر بھی کی  اور والد صاحب کی وفات کے بعد اوپر والا پورشن  بھی بنایا  کیونکہ جب  گھر کوتقسیم کیا گیا تو باقی گھر میں رہائش مشکل تھی اس لیے میں نے نئے سرے سے تعمیر کیا۔خرچہ سارا میں نے اپنی بچت اور قرض پکڑ کر کیا ۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد میرے دو بھائیوں نے والد صاحب کی حیات میں جب اپنے گھر کا حصہ بیچا تو اس وقت میری بہنوں نے ان سے کسی قسم کے حصے کا مطالبہ نہیں کیا۔ اب اس گھر میں ہم دو بھائی(***، ***)  رہائش پذیر ہیں اور رجسٹری بھی ہم دونوں کے نام ہے ۔ میرے چھوٹے بھائی(***)  کی اب شادی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے میں اسے  اس کا حصہ پیسوں کی صورت میں  دینا چاہ رہا ہوں تاکہ وہ علیحدہ رہ سکے۔ تو اب میری بہنیں جنہوں نے والد صاحب کی زندگی میں بھی تقسیم کے وقت کسی قسم کے حصہ کا مطالبہ نہ کیا اور دوسرے بھائی جو بیچ کر چلے گئے ان سے بھی حصہ طلب نہ کیا،  اب مجھ پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ دوسرے بھائی کو بھی اپنے ساتھ ہی رکھو ورنہ ہم تم سے حصے کا مطالبہ کرتی ہیں کیونکہ مکان ہمارے والد صاحب کا تھا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری بہنوں کو لگتا ہے کہ بھائی  *** اپنی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا اس لیے  اس کو میرے ساتھ ہی رہنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ اتنی دیر سے میں ذمہ داری اٹھا رہا ہوں اب آپ میں سے بھی کسی کو ذمہ داری اٹھانی چاہیے لہٰذا بڑ ے بھائی *** نے کہا کہ ٹھیک ہے اس کو حصہ دیکر میرے پاس اسلام آباد بھیج دو میں وہاں اس کی ترتیب بنادوں گا اور بھائی ***  حصہ لیکر جانے کے لیے بھی تیا رہے۔ مجھے معلوم ہے کہ والد صاحب نے تقسیم شرعی اعتبار سے نہیں کی یعنی بیٹوں کو تو دیا اور بیٹیوں کو محروم رکھا ۔ اس لیے میں اپنے حصے سے بہنوں کو حصہ دینے کے لیے تیار ہوں ۔ میں نے ان سے کہا ہے کہ تعمیر کا خرچہ سارا میں نے خود کیا اس لیے وہ تو میرا ہی حق ہے باقی گھر میں  اپنے حصے کو میں  آٹھ حصوں میں تقسیم کرتا ہوں اور سات حصے بہنوں کو دیتا ہوں کیونکہ ہماری سات بہنیں ہیں اس اعتبار سے جب آٹھ حصے کیے جائیں گے تو سات حصے بہنوں کو دیدیئے جائیں گے اور ایک میرا ہوگا اور حصہ   اس

وقت کے  ریٹ کے اعتبار سے  دوں گا  جب والد نے ہمیں یہ مکان  دیا  تھا لیکن بہنوں کا کہنا ہے کہ اس وقت ہمیں حصہ نہیں ملا اس لیے اب موجودہ قیمت کے اعتبار سے دو ۔جبکہ  بہنیں دوسرے بھائیوں سے کوئی مطالبہ نہیں کر رہیں۔سوال یہ ہے کہ جب مکان کے کاغذات ہم دو بھائیوں کے نام ہیں تو کیا شریعت میں بھائی اس بات کے پابند ہوں گے کہ بہنوں کو اس گھر کی زمین میں سے  حصہ دیں جب کہ ان کا مطالبہ صرف ایک بھائی کی حد تک ہو ۔ہمارا ایک بھائی ( ***) فوت بھی ہو چکا ہے ۔

مستفتی:*** (بیٹا)

***( بڑے بیٹے)  کا موقف:

مکان کے کاغذات میرے نام پر تھے۔ مجھے اپنی ملازمت کی وجہ سے کوارٹر ملا ہوا تھا جس میں کافی عرصے تک  سب رہتے رہے ۔ میں نے والد صاحب سے کہا کہ اگر میں یہ کوارٹر استعمال نہ کرتا تو اس کے مجھے پیسے ملتے اور میں کئی گھر بنا لیتا لیکن سب کے رہنے کی وجہ سے میں کچھ  نہ بنا سکا ۔ تو والد صاحب نے کہا یہ مکان چاروں آپس میں تقسیم کر لو ۔ والد صاحب نے زندگی میں ہی  ہم چاروں بھائیوں کو دے دیا تھا ۔ میں نے پھر بھی اپنا حصہ نہ لیا اور  ایک بھائی(جو فوت ہوچکا ہے اس )  کے حصے میں ایسی  جگہ تھی کہ راستہ نہ بن  پارہا تھا میں نے اس کو اور جو بھائی (***) اب مکان میں رہائش پذیر ہے اس کو اپنا حصہ دے دیا ۔ اگرچہ بھائی *** (سائل) کا کہنا یہ ہے کہ مجھے نہیں دیا بلکہ وہ سارا اس بھائی کو ہی دیا جو فوت ہو گیا ۔

***(بیٹے)  کا موقف :

مذکورہ بالا بات سے اتفاق ہے۔ میں بھائی سے حصہ لے کر الگ جانے کے لیے تیار ہوں۔

****(بیٹی) کا موقف :

سوال میں ذکر کردہ بات درست ہے مجھے بھائی *** کی بات سے اتفاق ہے ۔ معاملہ ایسا ہی ہے جیسا انہوں نے سوال میں لکھا ۔ میں حصے کا مطالبہ نہیں کر رہی۔

***(بیٹی)  کا موقف:

والد صاحب نے اپنی زندگی میں چاروں بھائیوں کو مکان دے دیا تھا جو شروع میں بھائی *** کے نام تھا بعد میں چاروں بھائیوں میں تقسیم ہو گیا ۔ لیکن والد صاحب نے اس معاملے میں بیٹیوں کو بالکل شریک نہ کیا تھا۔ اور صرف بیٹوں کو دے دیا ۔

*** (بیٹی) کا موقف:

اللہ تعالی نے وراثت کے احکام قرآن میں ذکر فرمائے  ہیں جو بالکل واضح ہیں۔ بیٹوں کو دو اور بیٹیوں کو ایک ۔ ہمارے والد صاحب ان پڑھ تھے ۔ بھائی ہی Owner(مالک) بنے رہے اور والد صاحب کے ذہن میں پرانے زمانے کی باتیں تھیں کہ بیٹیوں کی شادیاں کروا دیں اس لیے ان کا حصہ نہیں ہے ۔ جبکہ ایسا نہیں ہوتا ۔ وراثت  تو انسان کے مرنے کے بعد جاری ہوتی ہے اس لیے زندگی میں والد صاحب نے دیا بھی ہو تو اس کی کیا حیثیت ہو گی ؟  ہم بہنیں  اپنے گھروں میں تھی ہمیں کسی معاملے میں شریک نہیں کیا گیا ۔

*** (بیٹی) کا موقف:

مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ والد صاحب نے اپنی زندگی میں بیٹوں کو مکان دے دیا ہو ۔ ہمیں اپنا بھائی بہت عزیز ہے ہم حصے کا مطالبہ بھی نہیں کر رہی تھیں لیکن یہ دوسرے بھائی کو ساتھ نہیں رکھ رہا اس لیے ہم نے کہا اس کو ساتھ رکھ لو ہم حصے کے بارے میں بات بھی نہ کریں گی لیکن یہ نہیں رکھ رہا اس لیے ہمارے والد کا گھر ہے ہمیں بھی حصہ ملنا چاہیے ۔

نوٹ:دارالافتاء سے فون کے ذریعے سب بہن بھائیوں کا مؤقف لیا گیا لیکن بہن ***، ***اور ***سے متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود  رابطہ نہ ہوسکا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ مرحوم نے اپنی زندگی میں  گھر بیٹوں کے نام کرواکر ان کو قبضہ  بھی دیدیا تھا لہٰذا یہ گھر بیٹوں کی  ملکیت شمار ہوگا  اور بہنوں کا مطالبہ کرنا درست نہیں ۔ البتہ زندگی میں اولاد کو جوچیز دی جائے وہ وراثت نہیں ہوتی بلکہ  ہدیہ  ہوتی ہے اور اولاد کو ہدیہ دینے میں  یہ تفصیل ہے کہ لڑکے لڑکیوں کو برابر حصہ دیا جائے یا لڑکوں کو دو، دو حصے اور لڑکیوں کو ایک، ایک حصہ دیا جائے اورکسی معقول وجہ سے اس سے کم وبیش بھی دیا جاسکتا ہے تاہم بلاوجہ کمی بیشی کرنا یا صرف لڑکوں کو دینا اور لڑکیوں کو نہ دینا مکروہ ہے۔ مذکورہ صورت میں والد مرحوم نے  یہ مکان صرف اپنے بیٹوں کو دیکر بیٹیوں کو کسی معقول وجہ کے بغیر محروم کیا ہے جو ایک مکروہ کام ہے لہٰذا اگر مرحوم کے بیٹے  یہ چاہتے ہیں کہ ان کے والد کے ذمے کسی قسم کا  گناہ نہ رہے تو اس کی صورت یہ ہے کہ سب بھائی  اپنے اپنے حصوں میں سے یا اپنے پاس سے اپنے حصوں کے برابر یا اپنے حصوں سے آدھا  موجودہ قیمت کے اعتبار  سے  بہنوں کو دےدلا کر راضی کرلیں یا بہنیں اپنے والد مرحوم کو معاف کردیں۔

نوٹ: جو تعمیر *** (بیٹے) نے کی وہ اسی کی شمار ہوگی اور وہ  اس تعمیر کا خرچہ لے سکتا ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ مکان والی زمین  کی دو قیمتیں لگوائی جائیں گی ایک اس  تعمیرسمیت اور ایک اس  تعمیرکے بغیر ، دونوں قیمتوں کا درمیانی فرق تعمیر کی قیمت شمار ہوگا جو  *** (بیٹے) کا حق ہوگا۔

فتاوی عالمگیری (4/391)میں ہے:

ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد ‌تفضيل ‌البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف – رحمه الله تعالى – أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية.

درر الحكام شرح مجلۃ الأحكام (المادة:  1309)میں ہے:

 إذاعمرأحدالشريكين المال المشترك بإذن الشريك الآخرأي أن تكون التعميرات الواقعة للمعمر وملكا له فتكون التعميرات المذكورة ملكا للمعمر ويكون الشريك الآخر قد أعار حصته لشريكه.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved