• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

والدہ کے حصے کا مطالبہ کرنا

استفتاء

میرے نانا جی کی دو بیویاں تھیں۔ ایک نانی سے تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں۔ اور دوسری نانی سے صرف میری والدہ ہیں۔ میرے دو ماموں بیماری کی وجہ سے وفات پاگئے۔ میرے دونوں ماموں کے سسرال والوں نے اور جو ماما حیات تھا مل کر مشورہ کیا کہ بھائیوں کی وفات پر بہنوں کے دل نرم ہیں لہذا ان سے ان کے  حصے کی زمین اپنے نام کروالیں۔ اور میری خالاؤں نے کہا۔ کہ اگر ہماری سوتیلی بہن زمین دیتی ہے۔ تو ہم زمین دیں گی، ورنہ ہم بھی نہین دیں گی۔ لہذا میری والدہ نے میرے ابو کی اجازت کے بغیر زمین ان کے نام کروادی۔ اس کے بعد ابو اور والدہ کی آپس میں ناچاکی شروع ہوگئی۔ اس کے بعد میرے ماموں دور نزدیک سے کوئی  پھوپھی کا لڑکا تھا جس کا زمین میں حصہ بنتا تھا اس نے عدالت میں کیس کر دیا۔ اور زمین کا انتقال ٹوٹ گیا۔ اس سے انہوں نے پیسے وغیرہ دے کر صلح کر لی۔ لہذا انہوں نے مشورہ کیا کہ پہلے تو ماموؤں کی وفات کی وجہ سے بہنوں نے زمین دے دی تھی۔ اب ان میں سے کسی نے بھی نہیں  دینی۔ تو انہوں نے چار عورتیں ساتھ لے  جا کر جعلی طریقے سے دوبارہ انتقال اپنے نام کروا لیا۔ تو میری نانی کے حصے کی زمین انہوں نے بیچی یعنی فروخت کی تو نانی نے دو لاکھ روپے کا مطالبہ کیا۔ کہ میں نے اپنی بیٹی کو دینی ہیں۔ تو مامیوں نے بے عزتی کی۔ تو نانی ناراض ہو کہ ہمارے ہاں آگئی۔ اور پیچھے سے کوئی بھی  منانے کو نہیں آیا۔ اس  سے پہلے میری نانی  دو چار دن سے زیادہ ہماری نہیں ٹھہری تھی۔ اور اب وہ ہمارے ہاں مکمل طور پر آگئی۔ دو سال یا جتنے دن بھی وہ تندرست رہی وہ ہمارے پاس رہی۔ اس کے بعد نانی جان کو فالج پڑگیا۔ تو انہوں نے کہا کہ برادری والے کیا کہیں گے کہ ان کی والدہ بیٹی کے گھر بیمار ہے اور وہیں مرگئی۔ تو پھر یہ آکر نانی کو لے کر گئے۔ اور  پندرہ ، بیس دن بعد نانی جان وفات پاگئی۔ تو کیا شرعی طور پر ان سے  اپنی والدہ والی اور نانی والی زمین کا مطالبہ کر سکتا ہوں۔

وضاحت: ہماری والدہ دو سال پہلے فوت ہوگئی ہیں۔ نانی کا انتقال والدہ سے پہلے ہوا تھا۔ اب سوال دونوں کی زمین کے بارے میں  پوچھنا مقصود ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جب آپ کی والدہ اور ان کی بہنوں نے ایک مرتبہ اپنی خوشی سے زمین بھائیوں کو دیدی ہے تو اب واپس نہیں لے سکتیں۔ البتہ نانی نے چونکہ اپنا حصہ نہیں دیا تھا س لیے ان کا حصہ بدستور ان کے پاس رہا جو ان کی وفات کے بعد ورثاء میں تقسیم ہوگا۔ اس میں سے جو حصہ آپ کی والدہ  ہے اس کا مطالبہ ہوسکتا ہے۔

لو وهبها واحد من اثنين لا يجوز عند أبي حنيفة و قالا يصح لأن هذه هبة الجملة منهما إذ التمليك واحد فلا يتحقق الشيوع ( هداية ) لو وهب لرجلين داراً لأحدهما ثلثاهما و للآخر ثلثهما لم يجز عند أبي حنيفة و أبي يوسف و قال محمد يجوز. ( هداية )۔ فقط والله تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved