• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

والدہ کے پلاٹ پر تعمیر کروا کر واپسی کا مطالبہ کرنا

استفتاء

ایک پلاٹ تھا جس پرمیرے بھائی  نے بلڈنگ تعمیر کرائی کہ میری والدہ اور بھائی اس میں رہیں، یہ صاحب خود ملک سے باہر رہتے ہیں  اس بات کو تقریباً 15 سال گزر گئے ہیں  پلاٹ والدہ کی ملکیت ہے اب یہ تقاضا کر رہے  ہیں کہ بلڈنگ فروخت کر دی جائے اور جو میں نے اس پر خرچ کیا ہے ان پیسوں کو نکال کر باقی وراثت تقسیم کی جائے۔ ایک والدہ  دو بھائی اور پانچ بہنیں ہیں۔کیا ان کا تعمیر کے خرچےکی  واپسی کا مطالبہ درست ہے؟

فریق ثانی کا موقف:

تعمیر پر رقم خرچ کرتے وقت کوئی معاہدہ نہ ہوا تھا اور نہ ہی اس وقت میری نیت یہ خرچہ واپس لینے کی تھی ۔ تعمیر تو اس لیے کی تھی کہ میرے بھائی اور والدہ اس گھر میں رہیں گے ۔ میں یوکے میں ہوتا تھا ۔ لیکن اب بھائیوں کے رویہ کی وجہ سے میں یہ واپس لینا چاہتا ہوں۔ والدہ نے مجھے کہا بھی کہ اگر یہ بیچ دیں گے تو میں کہاں رہوں گی ؟ میں نے کہا آپ زمین کے پیسوں سے کوئی اور جگہ دیکھ کر اپنا بندو بست کر لیں۔

وضاحت مطلوب ہے: آپ نے والدہ کو تعمیر کروا کر دی تھی یا پیسے دیئے تھے کہ وہ گھر بنا لیں اور  اس وقت کیا نیت تھی کہ یہ تعمیر آپ کی ہوگی اور والدہ اس میں عارضی طور پر رہیں گی یا یہ تعمیر والدہ کی ملکیت ہوگی؟

جواب وضاحت: پیسے دیئے تھے اور بطور ملک دیئے تھے اس  وقت، لیکن بھائیوں کے رویہ کی وجہ سے واپس لینا چاہتا ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

تعمیرکا خرچہ کرتے وقت چونکہ بھائی  کی نیت ان سے یہ رقم واپس لینے کی نہ تھی اور نہ ہی ایسا کوئی معاہدہ ہوا تھا بلکہ بھائی  نے بطور  بیٹا اور بھائی نیکی اور احسان والا معاملہ کیا تھا جس کا اجر ان شاء اللہ تعالی، اللہ تعالیٰ  سے بھائی کو ملے گا لہذا اب خرچے کا مطالبہ کرنا درست نہیں۔ نیز وراثت انسان کے مرنے کے بعد جاری ہوتی ہے اور آپ کی والدہ ابھی حیات ہیں لہٰذا وراثت تقسیم کرنے کا مطالبہ بھی درست نہیں ہے۔

تنقیح الفتاویٰ الحامدیہ (2/391) میں ہے:

المتبرع لايرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير امره

فتاوی شامی (6/728)میں ہے :

وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة

شامی( 6/353 )میں ہے :

في القنية و غيرها: لو أنفق ماله على الصغير ولم يشهد فلو كان المنفق أباً لم يرجع.

شامی( 6/353 )میں ہے :

قلت :والمراد بالصيرفي من يستدين منه التجار ويقبض لهم فيرجع بمجرد الأمر للعرف بأن ما يؤمر بإعطائه هو دين على الآمر، بخلاف غير الصيرفي فلا يرجع بقوله أعطِ فلانا كذا إلا بشرط الرجوع .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved