- فتوی نمبر: 30-201
- تاریخ: 24 نومبر 2023
استفتاء
1-میرا سوال یہ ہے کہ اپنے والدین کو جھک کر مل سکتے ہیں ؟اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کیونکہ میرا خیال ہے کہ ان کو جھک کر ملنے سےہمارے دل کو تسلی ملتی ہے۔
2- کسی اور بزرگ یا نیک شخصیت یا کسی رشتہ دار بزرگ کو جھک کر ملنا کیسا ہے ؟اس بارے میں دین اسلام، شریعت،قران و سنت و حدیث کے مطابق کیا حکم ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
2،1-اپنے والدین کو اور اسی طرح کسی بزرگ وغیرہ کو جھک کر ملنا جائز ہے بشرطیکہ جھکنا رکوع کی حد تک نہ ہو اور رکوع کی حد تک جھکنا یہ ہے کہ آدمی اتنا جھکے کہ اگر وہ اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھنا چاہے تو آسانی سے رکھ سکے۔
مرقاة المفاتيح (رقم الحدیث:4680)میں ہے:
(وعن أنس رضي الله عنه قال: قال رجل: يا رسول الله! الرجل منا) أي: من المسلمين، أو من العرب (يلقى أخاه) أي: المسلم أو أحدا من قومه، فإنه يقال له أخو العرب (أو صديقه) أي: حبيبه وهو أخص مما قبله (أينحني له؟):من الانحناء، وهو إمالة الرأس والظهر تواضعا وخدمة (قال: لا) أي: فإنه في معنى الركوع، وهو كالسجود من عبادة الله سبحانه (قال: أفيلتزمه) أي: يعتنقه ويقبله (قال: لا) : استدل بهذا الحديث من كره المعانقة والتقبيل، وقيل: لا يكره التقبيل لزهد، وعلم، وكبر سن، قال النووي: تقبيل يد الغير إن كان لعلمه وصيانته وزهده وديانته، ونحو ذلك من الأمور الدينية لم يكره، بل يستحب، وإن كان لغناه أو جاهه في دنياه كره وقيل حرام.
ہندیہ(5/ 369)میں ہے:
ويكره الانحناء عند التحية وبه ورد النهي.
شامی (9/632)میں ہے:
وفي الظهيرية يكفر بالسجدة مطلقا وفي الزاهدي الإيماء في السلام إلى قريب الركوع كالسجود وفي المحيط أنه يكره الانحناء للسلطان وغيره.
الدر المختار مع رد المحتار(1/ 447)میں ہے:
ومنها(الركوع) بحيث لو مد يديه نال ركبتيه.
قال ابن عابدين:وأما كماله(الرکوع) فبانحناء الصلب حتى يستوي الرأس بالعجز وهو حد الاعتدال فيه
مجمع الانہر فی شرح ملتقى الابحر (2/ 542)ميں ہے:
وفي القهستاني الإيماء في السلام إلى قريب الركوع كالسجود.
امداد الفتاوی(5/351) میں ہے:
سوال: اگر قدم بوسی بلا کراہت جائز ہو تو سر جھکا کر اگرچہ حد رکوع سجود ہو تو جائز ہے یا نہیں؟
جواب:جو انحناء مقصودا ہو وہ ناجائز ہے اور جو بضرورت تقبیل کے لازم آجاوے وہ حکم میں تقبیل کے تابع ہے۔
کفایت المفتی(1/271)میں ہے:
سوال:کسی بزرگ کے ہاتھ کو بوسہ دینا اور گھٹنے کو ہاتھ لگانا کیسا ہے ؟جب کہ اس کے لئے جھکنا بھی پڑتا ہے۔
جواب :کسی بزرگ کے ہاتھ کو بوسہ دینا جائز ہے اور اس کے گھٹنے کو ہاتھ لگانا مباح ہے۔ ان دونوں صورتوں میں جو جھکنا پڑتا ہے ، وہ بضرورت ہوتا ہے اس جھکنے سے تعظیم مقصود نہیں ہوتی، ہاں قصداً تعظیم کی غرض سے جھکنا کہ رکوع کی حدتک پہنچ جائے حرام ہے۔
فتاوی رحیمیہ(1/263)میں ہے:
سوال : ہمارے یہاں ایک مسلمان ’ ’کراٹے‘‘ (یہ ایک طرح کی کشتی ا ور ورزش ہے جس میں مختلف داؤ سکھائے جاتے ہیں ) سکھاتے ہیں انہوں نے یہ فن نیپال جاکر سیکھا ہے ، ان کے پاس جانے اور روانگی کے وقت اپنے دونوں ہاتھ کولھوں پر رکھ کر رکوع کے قریب قریب جھک کر نیپالی زبان میں ان کا شکریہ ادا کرنا پڑتا ہے ، اور وہ اور اس ادارہ کے منتظم یہ کہتے ہیں کہ اس فن کے سیکھنے کے لئے اس طرح جھک کر شکریہ ادا کرنا اور تعظیم بجا لانا ضروری ہے ،تو اس طرح جھک کر شکریہ ادا کرنا اور تعظیم بجا لانا شرعاً جائز ہے ؟ یا اس میں کراہیت ہے ؟ بینوا توجروا۔
جواب:مسلمانوں کا ایمان ہے کہ اﷲ ہی سب سے زیادہ قابل تعظیم ہے اﷲ ہی کی ذات اس قابل ہے کہ انسان اس کے سامنے اپنی جبین نیاز جھکائے اسی وجہ سے اسلام میں غیر اﷲ کو سجدہ کرنا حرام قرار دیا گیا ہے اور اسی بنا پر فقہاء نے اس صورت کو بھی مکروہ لکھا ہے کہ کوئی شخص کسی کے سامنے رکوع کے مانند جھک کر سلام کرے یا اس کی تعظیم بجالائے ،شامی میں ہے ۔ قال القهستانی وفی الظهيرية یکفر بالسجدة مطلقا وفی الزاهدى الإیماء فی السلام الی الرکوع کا لسجود وفی المحیط انه یکره الانحناء للسلطان وغیرہ یعنی علامہ قہستانی فرماتے ہیں ،ظہیریہ میں ہے کہ مطلقاً (غیر اﷲ کو ) سجدہ کرنے کی وجہ سے انسان کافر ہوجاتا ہے ، زاہدی میں ہے کہ سلام کرتے وقت رکوع جیسی ہیئت بنا لینا یہ سجدہ کے مانند ہے(یعنی جس طرح غیر اﷲ کو سجدہ کرنا ناجائز ہے اسی طرح رکوع کے بقدر جھکنا بھی ناجائز ہے۔ اور محیط میں ہے کہ بادشاہ یا کسی اور کے سامنے جھکنا مکروہ تحریمی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved