- فتوی نمبر: 17-110
- تاریخ: 19 مئی 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ایسے والدین کے بارے میں کہ جن کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہوں ، بیٹیاں شادی شدہ ہوں اور اپنے گھروں میں آباد ہو ں اور بیٹے بھی شادی شدہ ہوں اور ماں باپ کے ساتھ رہتے ہوں۔
ایک بیٹا (الف) برسرروزگار ہو جبکہ دوسرا بیٹا (ب) برسر روزگار بھی نہ ہو اور نہ ہی اس نے اپنی زندگی میں اس کی کوشش کی ہو ۔دوسرا بیٹا (ب) باوجودیکہ بال بچے دار ہو،ہمیشہ مالی معاونت کے لیے ماں باپ کی طرف دیکھتا ہو، کبھی نوکری نہ کی ہو اور کاروبار کی مدمیں کئی مرتبہ والدین سے رقم لے چکا ہو، ماں باپ بھی اپنے دوسرے بیٹے کی مالی امداد کئی مرتبہ کر چکے ہو ں۔
2000 میں ماں نے اپنی ملکیت میں موجود ایک پلاٹ اپنے (الف)نامی بیٹےکو دیا اور 2007 میں اس پلاٹ کی ملکیت بیٹے سے دوبارہ واپس مانگ لی جو کہ بیٹے کی طرف سے دے دی گئی۔بعد ازاں 2013 میں ماں نے وہ پلاٹ الف نامی بڑے بیٹےکی ملکیت میں دوبارہ دینے کی خواہش کا اظہار کیا مگر اس مرتبہ بیٹے نے یہ شرط رکھی کہ اگر آپ مجھے یہ پلاٹ دینا چاہتی ہیں تو اس کےعوض مجھ سے ایک قیمت لے لیں اوریوں مبلغ 250000 روپے کے عوض 2013میں پلاٹ کا انتقال ملک الف نامی بیٹےکےنام پر ہوا جس کے شواہد موجود ہیں، انتقال ملکیت کے بعد الف نا می بیٹے نے پلاٹ کے کاغذات ماں کے پاس ہی رہنے دیئے۔ اب سے کچھ عرصہ قبل جب بیٹے نے پلاٹ کے کاغذات دیکھے تو اس میں انتقال ملکیت کے کاغذات کے علاوہ باقی تمام کاغذات موجود تھے۔استفسار پر معلوم ہوا کہ کاغذات اس لیے نکالے گئے ہیں کہ اس پلاٹ کو وراثت میں تقسیم کیا جا سکے۔
مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
- والدین کا اپنی تمام اولاد سے قطع نظر ایک اولاد (بیٹے)پر پوری زندگی خرچ کرنا شریعت کی روشنی میں کیا حکم رکھتا ہے؟
2.والدین بیٹے کی ملکیت میں موجود کسی چیز کو نکال کر پھر اسے وراثت میں کس طرح تقسیم کرسکتے ہیں؟ جبکہ وہ اس کے مالک ہی نہ ہوں؟
- پلاٹ ماں کی ملکیت سے الف نامی بیٹے کی ملکیت تک کاعمل تمام قانونی تقاضے پورے کر چکا ہے۔ چنانچہ شریعت ایسے انتقال ملک کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
4.کیا اس طرح ماں باپ کا ایک ہی بیٹے کو کاروبار کی مد میں کئی مرتبہ رقوم کا فراہم کرنا اور باقی اولاد کو نظرانداز کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟
- اگر الف نامی بیٹا اپنی ملکیت میں موجود پلاٹ کو فروخت کرچکا ہوتا تو خریدوفروخت کا یہ عمل درست ہوتا؟
- کیا شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اولاد اپنے والدین سے پوچھ سکیں کہ اولاد کے درمیان یہ تفریق کیوں رکھی گئی ہے؟شریعت کی روشنی میں جواب مطلوب ہے۔
مزید وضاحت:
سائل نے ٹیلی فون پر مزید وضاحت دی کہ اس کی والدہ نے پلاٹ اپنی ملازمت کے پیسوں سے خریدا تھا اور وہ اب بھی کہتی ہیں کہ پلاٹ تمہارا ہے لیکن اس کے والد کہتے ہیں کہ پلاٹ والدہ کی وراثت میں تقسیم ہوگاوالد صاحب کو یہ فکرلاحق ہے کہ چھوٹے بھائی کے معاش کا کیا ہوگا؟انہوں نے اس کو ایک دفعہ 20 لاکھ روپے کا روبار کرنے کے لئے دئیے پھر والدہ نے بھی اسے بیس لاکھ روپیے کاروبار کرنے کے لیے دیئےتھے لیکن آج کل کاروباری حالات خراب ہونے کی وجہ سے وہ ڈسٹرب ہے، اسی لئے ایک موقع پر والد صاحب نے مجھ سے تقاضہ کیا کہ میں اپنے بھائی کو 35 ہزار روپے ماہانہ دو ں جبکہ والد صاحب بھی اسے پچیس ہزار روپے ماہانہ دے رہے ہیں۔ فتوی لینے سے میری غرض یہ ہے کہ میں اپنے والد صاحب کو دکھاسکوں کہ شریعت کا حکم کیا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔جس بیٹے پروالدین خرچ کر رہے ہیں اس کااوروالدین کاتحریری مؤقف جانے بغیراس کاجواب نہیں دیاجاسکتا۔
2۔انتقال ملکیت کے کاغذات کی کاپی ساتھ لف کریں اس کے بعد کچھ بتایاجاسکتا ہے۔
3۔کاغذات کی کاپی ساتھ لف کریں اس کے بعد کچھ بتایاجاسکتاہے۔
4۔نمبرچارکےذیل میں مطلوبہ وضاحت کےبعدکچھ کہاجاسکتاہے اس سے پہلے جواب نہیں دیاجاسکتا۔
- انتقال ملکیت کے کاغذات دیکھنے کے بعد ہی کچھ کہہ سکتے ہیں اس سے پہلے کچھ نہیں جاسکتا۔
6۔اولادکوشرعایہ حق حاصل نہیں۔۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved