• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

والدین کا نکاح نہ کرنے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

استفتاء

مولانا میں   کالج کا سٹوڈنٹس ہوں   ،میں   بارہ سال کی عمر میں   جوان ہوگیا تھا۔ اب میری عمر 16 سال ہے۔ اب میرے اندر نکاح کا جزبہ حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے اور میں   اپنے آپ کو نکاح کے قابل سمجھتا ہوں   کیونکہ نکاح کے تمام حقوق سے واقف ہوں  ۔اب ہر وقت میرے اندرتڑپ اور بے چینی پیدا ہوگئی ہے۔اب مجھے راتوں   کو نیند بھی نہیں   آتی ۔اور میری بھوک بھی بہت متاثر ہو گئی ہے۔اب میرا نماز اور عبادت میں   جی نہیں   لگتا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری نہیں   سنتے۔میں   نے روزے رکھ کر بھی دیکھے مگر کچھ نہیں   ہوا۔اب میں   دین کی طرف آتا ہوں   تو میری بے چینی بڑھ جاتی ہے۔میرے والدین کہتے ہیں   کہ کرلے شادی مگر وہ میرا رشتہ ڈھونڈنے میں   کوئی مدد نہیں   کر رہے۔ میں   جانتا ہوں   کہ میری عمر کم ہے مگر میں   مکمل جوان ہوں   اور ہر مسئلہ سے واقف ہوں  ۔میں   نبی اکرم کے فرمان کے مطابق دیندار لڑکی کو ترجیح دیتا ہوں  ۔میرا وراثت کے مطابق ایک پورشن میرے حصے میں   آتا ہے۔اب میں   کیا کروں  ۔کیا آپ میری کچھ رہنمائی کر سکتے ہیں  ۔میں   اس وجہ سے دین سے دور ہوں  ۔میری یہ حالت گزشتہ سال سے ہے اور میرے والد ایک عالم ہیں   مگر وہ اس میں   دلچسپی نہیں   لے رہے۔کچھ رہنمائی کریں   کہ کیا کروں  کہ اس صورت میں   والدین کی اطاعت مجھ پر فرض ہے کیا؟کہ اس حالت میں   نکاح کرنا مجھ پر فرض ہے؟کیا مجھے ان سب کی مان کر چلنا چاہیے جو کہتے کہ نکاح 23 سے 25 سال کی عمر میں   کرنا چاہیے جن میں   میری بہن بھی شامل ہے جو مجھے اس بات پر دباؤ ڈال رہے ہیں  ؟بس مجھے ان سوالات کے بارے میں   رہنمائی درکار ہے۔

وضاحت مطلوب ہے :

۱۔ بیوی کے حقوق یعنی کچن ،کپڑا جوتا ،اور رہائش کے حوالے سے آپ کے پاس نظم کیا ہے ؟

۲۔ والدین کے تعاون نہ کرنے کی وجہ صرف آپ کی کم عمری ہے یا کوئی اور بھی وجہ ہے؟

۳۔            آپ غیر محرم عورتوں   یا تصاویر وغیرہ سے اپنی نظر کی حفاظت کس حدتک کرتے ہیں  ؟

۴۔            اور والد کے زندہ ہوتے ہوئے وراثت میں   پورشن کیسے آگیا ہے؟

جواب وضاحت :

۱۔۲۔۳۔۴۔           میرے والدین صرف میری عمر کی وجہ سے میرے ساتھ تعاون نہیں   کر رہے ہیں   اور وہ سمجھ رہے ہیں   کہ نکاح کرنا بہت مشکل ہے۔اور جہاں   تک بات وراثت کی تو میرے والدین نے مجھ سے کہا ہوا ہے کہ جب مجھے اپنے حصہ کی جائز ضرورت ہوگی وہ مجھے میرا حصہ دے دیں   گے۔اور نظم کے مطابق میں   کوئی نوکری بھی کرسکتا ہوں   اور میں   نے برگر وغیرہ کا کام سیکھا ہوا ہے۔اور میں   پڑھا لکھا ہوں   اور وقت آنے پر کوئی بڑی نوکری یا کاروبار بھی کرسکتا ہوں  ۔اور میں   اپنی نظر کی حفاظت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں  اور میں   اپنی زوجہ کی ضرورت پوری کرنے کی طاقت رکھتا ہوں  اور میرے والدین اس وجہ سے بھی تعاون نہیں   کررہے کیونکہ ہمارے خاندان میں   لڑکے دیر سے شادی کرتے ہیں  وہ کہتے ہیں   کہ شادی کرنے کا 1 یا 2 لاکھ خرچہ آتا ہے جو مجھے اپنے بل بوتے پر کرنی ہے۔مگر میں   سادگی اور اسلام کے مطابق کرنا چاہتا ہوں  میرے والدین سمجھتے ہیں   کہ اس عمر میں   کوئی تمہیں   رشتہ نہیں   دے گامیں   پہلے فلمیں   دیکھتا تھا مگر مولانا طارق جمیل صاحب کے بیانات سن کر میں   نے چھوڑ دیا اور اس سے توبہ کر لی مگر میں   کبھی کبھار آڈیو گانے سن لیتا ہوں   جس پر میں   آہستہ آہستہ کنٹرول کر رہا ہوں  ۔مگر میں   اپنی نظر کی حفاظت ہر ممکن کررہا ہوں  میں   پہلے بھی اپنے والدین سے اپنا حصہ مانگ چکا ہوں   کہ میں   اکیلا رہنا چاہتا ہوں   مگر انہوں   نے اس بات سے منع کردیا کہ میں   اکیلا رہ کر کسی گناہ میں   مبتلا ہو جاؤں   گا اور کہا کہ جب تمہاری شادی ہوگی ہم تمہارا حصہ تمہیں   دے دیں   گے اور ہر پورشن مکمل ہے یعنی اس میں   کچن ، کمرہ،باتھ روم وغیرہ سب مکمل ہے اور مجھے کئی بار لڑکیوں   کی طرف سے دوستی کر نے کا موقع ملا مگر میں   نے اس سے اپنے آپ بچائے رکھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر آدمی اپنی بیوی کے حقوق واجبہ میں  سے نان نفقہ ،لباس ،رہائش کی نہ خود استطاعت رکھتا ہو اور نہ والدین وغیرہ ان مذکورہ حقوق میں   تعاون کے لیے تیار ہوں   تو ایسی صورت میں   شادی کرنا جائز نہیں   ۔ایسی صورت میں   اگر گناہ میں   مبتلاء ہونے کا اندیشہ ہو تو مسلسل روزے رکھے جائیں   یہاں   تک کہ گناہ کی خواہش ٹوٹ جائے۔حدیث پاک میں   ہے:

عن عبد الله بن مسعود قال قال رسول الله ﷺ:يا معشر الشباب ! من استطاع منکم البائۃ فليتزوج فانه اغض للبصر واحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فانه له وجاء ۔۔۔(مسلم:رقم الحديث 1400)

ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن مسعود ﷺکہتے ہیں   رسول اللہ ﷺنے فرمایا:ائے نوجوانوں   کی جماعت !تم میں   سے جو کوئی (اپنی بیوی کے حقوق واجبہ ادا کرنے کی)استطاعت رکھتا ہوا سے چاہیے کہ شادی کرے کیونکہ شادی عفت وعصمت اور نظر کی حفاظت میں   بہت زیادہ معاون ہے اور جو استطاعت نہ رکھتا ہواسے چاہیے کہ (کثرت سے)روزے رکھے۔کیونکہ یہ روزے رکھنا اس آدمی کے لیے (گناہوں   سے بچنے کے لیے )ڈھال بن جائے گا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved