• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

والدین کی اجازت کے بغیر لڑکی کا غیر کفو میں نکاح کرنا

استفتاء

گزارش ہے کہ میرے دوست کی بیٹی 15 سال ایک ہمسائے کے بیٹے کے ساتھ جوکہ بدچلن اور نشئی بے دین ہے کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی۔ میرا دوست ایک شریف اور کاروباری آدمی ہے۔ جب گھر والوں کو اس بات کا پتہ چلا تو اس لڑکے کے بڑے بھائی سے بات کی تو اس نے کہا کہ میرا بھائی ایک آوارہ انسان ہے، بے دین انسان ہے۔ اس نے غلط کیا ہے۔ میں آپ لوگوں کی مدد کرتا ہوں۔ اور لڑکی کی واپسی میں آپ کی  رہنمائی  کروں گا۔ جناب وہ لڑکا بچی کو دوسرے صوبے لے گیا تھا۔ ہم اس کے تعاقب میں وہاں گئے تو وہاں پر اس نے ایک نہایت بدکردار شخص کے پاس پناہ لی ہوئی تھی۔ وہ ماحول بہت بے دین لوگوں کا تھا، ہر طرف منشیات کے دھوئیں اور بدبو پھیلی ہوئی تھی، اس شخص سے بچی کی واپسی کی بات کی تو اس نے بتایا کہ ہم نے لڑکی اور لڑکے کا نکاح کرادیا ہے۔ میرے دوست نے کہا کہ میں لڑکی کا باپ  ہوں میں اس نکاح کو تسلیم نہیں کرتا۔ یہ لڑکا کسی طرح بھی میری بچی کے قابل نہ ہے۔ بہر حال کسی نہ کسی طرح بچی کو واپس لانے  میں کامیاب ہوگئے۔ جناب عالی بچی بھی بیان دیتی ہے کہ ہمارا نکاح ہوا ہے۔ لیکن بچی اب واپس نہ جانا چاہتی ہے۔ اس لڑکے کا اصل کردار اب بچی کو بھی معلوم ہوگیا ہے۔ جناب عالی لڑکے کے بھائی نے اخبار اشتہار کے ذریعے لڑکے سے اعلان لاتعلقی کردیا ہے۔ لڑکا ایک آوارہ اور بدچلن انسان ہے۔ میری بچی کو ورغلا کر لے گیا تھا۔ جناب عالی جو نکاح ان لوگوں نے کیا ہے شریعت میں اس کے متعلق کیا حکم  ہے؟ کیونکہ یہ ایک بچی کی ساری زندگی کا مسئلہ ہے۔ مہربانی کرکے ہماری رہنمائی کی جائے۔ اور شریعت کے مطابق فتویٰ دیا جائے۔

لڑکی کا بیان یہ بھی ہے کہ وہ آدمی اسے اپنے گھر سے زبردستی لے کر گیا تھا پڑوس کی وجہ سے عورتوں کا اس گھر میں آنا جانا تھا۔ ایک بچی کے ہاتھ اس کو کہلوایا کہ میری امی تمہیں بلاتی ہے۔ اس پر وہ لڑکی وہاں گئی تھی۔ اور قتل کی دھمکی پر نکاح کروایا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

چونکہ لڑکا فاسق و فاجر ہے اور لڑکی نیک سیرت ہے اس لیے لڑکا لڑکی کا کفو اور جوڑ نہیں ہے۔ اس لیے  مذکورہ صورت میں لڑکی کا نکاح اس شخص سے منقعد نہیں ہوا۔ اس لیے اس کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں ہے۔ چنانچہ لڑکی پہلی طرح آزاد ہے اس شخص سے طلاق لینے کی بھی ضرورت نہیں۔

في الشامية:و يفتى  في غير الكفو بعدم جوازه أصلاً و هو المختار للفتوى لفساد الزمان.(322/ 2)

فعلى هذا  فالفاسق لا يكون كفواً لصالحة بنت صالح. (348/2 )

و الفاسد كل نكاح  اختلف العلماء في جوازه. (380/2 )۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved