- فتوی نمبر: 33-110
- تاریخ: 30 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > ہبہ و ہدیہ
استفتاء
ہم بالترتیب پانچ بھائی ہیں (زید، بکر ، خالد، عمر اور صہیب ) اور ایک ہماری بہن ہے (فاطمہ) ہمارے والدین کے 3 مکانات تھے، جن میں سے 2 مکان والدہ نے بنائے تھے اور 1 مکان والد صاحب نے بنایا تھا، والدین نے اپنی زندگی ہی میں یہ تینوں مکانات مختلف اوقات میں فروخت کر کے ہم 5 بھائیوں میں تقسیم کر دیئے تھے، لیکن بہن کو حصے کے نام پر کچھ نہیں دیا۔
یہ تینوں مکانات مختلف اوقات میں (جیسے جیسے ضرورت پیش آتی رہی ویسے ویسے ) کم زیادہ قیمت پر بکے تھے، جس کی تفصیل یہ ہے سب سے پہلے سن 1984ء میں (والدہ کے بنائے ہوئے مکانوں میں سے ) ایک مکان بکا، یہ مکان 35,000 ( پینتیس ہزار ) روپے میں بکا جس میں سے 5000 روپے والد صاحب نے خود رکھ لیے اور باقی 30,000 روپے بڑے دو بھائیوں (زید اور بکر) کے درمیان برابر 15000،15000 روپے تقسیم کر دیئے۔
دوسرا مکان ( یہ مکان بھی والدہ کا بنایا ہوا تھا ) سن 2000ء میں 280,000 (دولاکھ اسی ہزار روپے) میں بکا اور دو بھائیوں (خالد اور عمر) کے درمیان برابر تقسیم ہو گیا۔
بعد ازاں سن 2003ء میں (والد صاحب کا بنایا ہوا) مکان بیچا گیا، یہ مکان 335,000 ( تین لاکھ پینتیس ہزار ) روپے میں بکا، سب سے پہلے سن 1984ء میں جن دو بھائیوں (زید اور بکر) کو حصہ ملا تھا، ان میں سے بکر کا کاروبار میں نقصان ہو کر اس کا حصہ بالکل ختم ہو گیا تھا، اس بنیاد پر سب بھائیوں اور والدین نے باہمی رضامندی سے اس تیسرے مکان میں سے آدھا حصہ (یعنی 167,500 روپے) سب سے چھوٹے بھائی صہیب اور اتناہی بکر کو دے دیا۔
اس تقسیم میں ہم بھائیوں میں سے کسی کو کم ملا کسی کو زیادہ ملا، بوجہ ضرورت ایک بھائی ( بکر) کو دو بار ملا، باقی سب کو ایک ایک بار ملا، جسے کم ملا اسے زیادہ ملنے والے پر اعتراض نہیں، جسے ایک بار ملا اسے دوبار ملنے والے پر اعتراض نہیں، لیکن ان مکانات میں سے بہن کو حصے کے نام پر کچھ نہیں دیا گیا ( گو کہ حصے کے علاوہ والدین اور بھائی بصورت نقدی اور کبھی کبھی ضرورت کی کوئی چیز بہن کو ہدیہ کرتے رہے، لیکن یہ ہدیہ کرنا حصے کے طور پر نہیں تھا)۔
والد صاحب کا انتقال ہو چکا ہے اور والدہ الحمد للہ حیات ہیں، والد صاحب کا جب انتقال ہوا تو ان کے پاس کچھ نہ تھا، نہ کوئی مکان نہ کاروبار نہ پیسہ، اس مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے ہم یہ بات جاننا چاہتے ہیں کہ بہن کو حصہ نہیں دیا گیا، کیا ہمارا یا والدین کا ایسا کرنا بہن کے ساتھ نا انصافی کے زمرے میں آتا ہے؟ اگر شرعی اعتبار سے یہ تقسیم درست نہیں ہوئی اور والدین کی گردن پر کوئی بار ہے تو ان کی خلاصی کی کیا صورت ہوگی؟ ہم یہ چاہتے ہیں کہ والدین کی گردن پر بھی بار نہ رہے اور اگر نادانی میں بہن کے ساتھ نا انصافی ہو گئی ہے تو اس کا بھی تدارک ہو جائے، از راہ کرم شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دیں کہ یہ معاملہ اگر درست نہیں ہوا تو اب کیسے ٹھیک ہو گا، اور کس بھائی کے ذمہ کیا ادائیگی لازم ہو گی؟
وضاحت مطلوب ہے:(1) بہن کو نہ دینے کی کیا وجہ تھی کیا اس وقت بہن کی مالی حالت بھائیوں سے بہتر تھی اگر بہتر تھی تو کس قدر بہتر تھی؟(2) کیا اب بہن کی طرف سے مطالبہ ہے؟(3) اگر نہیں تو سوال کیوں پوچھا جا رہا ہے؟
جواب وضاحت:(1) بہن بھائیوں کی مالی حالت تو تقریباً ایک جیسی تھی، دراصل جیسے جیسے بھائی عیال دار اور بر سر روز گار ہوتے رہے اور انھیں اپنا گھر بنانے یا کاروبار کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت پیش آتی رہی، ویسے ویسے انھیں دیا جاتا رہا، یہی وجہ ہے کہ سب کو اکٹھا نہیں دیا گیا، اور نہ ہی سب کو ایک جتنا دیا گیا، بلکہ جس کو جب ضرورت پڑی اس وقت دے دیا گیا۔(2) بہن اب مطالبہ نہیں کر رہی۔(3) سوال پوچھنے کی وجہ یہ ہے کہ سوال میں مذکور تقسیم اگر درست ہے تو ٹھیک اگر درست نہیں تو اب کس طرح معاملے کو درست کیا جائے کہ بہن کا حق ہم بھائیوں کے ذمہ میں نہ رہے اور آخرت میں ہم سے کوئی باز پرس نہ ہو۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں بھائیوں کے ذمے بہن کا کوئی حق نہیں نیز والد کی بھی بظاہر بیٹی کو محروم کرنے کی نیت نہ تھی اس لیے والد بھی مذکورہ تقسیم میں گنہگار نہیں ہوئے۔
الدرالمختار (583/8) میں ہے:
وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده يسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى. ولو وهب فى صحته كل المال للولد جاز وأثم.
ہندیہ(4/ 391) میں ہے:
ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى
احسن الفتاویٰ(9/310) میں ہے:
سوال: زید نے اپنی زندگی میں تمام مال وجائیداد اپنی اولاد میں شرعی حصص کے مطابق تقسیم کر دی تو زید کی زوجہ کے لیے کیا حکم ہے؟ وہ کون سے مکان میں سکونت اختیار کرے گی جبکہ مکان اولاد کے حصے میں جائے گا۔
جواب: اگر بیوی کو کچھ نہ دیا تو گنہگار ہوگا نیز زندگی میں وراثت کی تقسیم نہیں ہوتی بلکہ یہ ہبہ ہے اور اولاد کو کم و بیش ہبہ کرنے میں تفصیل ہے:
1۔ اگر دوسروں کا اضرارمقصود ہو تو مکروہ تحریمی ہے ۔
2۔اگر اضرار مقصود نہ ہو اور کوئی وجہ ترجیح بھی نہ ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔ذکور واناث میں تسویہ مستحب ہے ۔
3۔ دینداری ،خدمت گزاری، خدمات دینیہ کا شغل یا احتیاج وغیرہ وجوہ کی بنا ء پر تفاضل مستحب ہے۔
4۔بے دین اولاد کو بقدر قوت سے زیادہ نہیں دینا چاہیے ان کو محروم کرنا اور زائد مال امور دینیہ میں صرف کرنا مستحب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved