• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

ولیمے کا مسنون وقت

  • فتوی نمبر: 8-236
  • تاریخ: 07 مارچ 2016
  • عنوانات:

استفتاء

ولیمہ کا مسنون وقت کب ہے؟ نکاح کے فوراً بعد یا رخصتی کے بعد؟ پھر رخصتی کی صورت میں اگر حقوق زوجیت کسی وجہ سے ادا کرنے کی نوبت نہ آئی ہو  تو کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ولیمہ کا مسنون وقت کب ہے؟ اس میں متعدد اقوال ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح سے لے کر رخصتی کے بعد تک جس وقت بھی نکاح یا شادی کے عنوان سے جو کھانا کھلایا جائے وہ ولیمہ ہے۔ لیکن ان اقوال میں راجح قول یہ ہے کہ  رخصتی کے بعد میاں بیوی کی یکجائی کے بعد  ولیمہ کیا جائے۔ کیونکہ خود آپ ﷺ اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے عمل سے یہی ثابت ہے کہ یہ حضرات بیوی کے پاس رات گذارنے کے بعد ولیمہ کیا کرتے تھے۔ میاں بیوی کی یکجائی کے بعد عموماً حقوق زوجیت ادا کرنے کی نوبت آہی جاتی ہے، تاہم حقوق زوجیت کی ادائیگی سنت ولیمہ کے لیے ضروری نہیں۔ کیونکہ حقوق زوجیت ادا کرنے کا ذکر فقہ و حدیث کی عبارات میں نہیں ملتا، اور ویسے بھی یہ ایک  امر مخفی ہے جس پر ولیمے کی بنیاد نہیں رکھ سکتے۔

جن عبارات میں ’’بعد الدخول‘‘ کا تذکرہ ہے، اس سے مراد ہمبستری نہیں بلکہ بیوی کے پاس داخل ہونے کے بعد کا وقت مراد ہے یعنی یکجائی کے بعد کا وقت، ورنہ تو جس قول میں ’’عند الدخول‘‘ ولیمے کا وقت بیان کیا گیا ہے، اس سے مراد بھی ہمبستری ہو گی اور عین ہمبستری کے وقت ولیمے کو مسنون کہنا بعید ہے۔ اور حیا کے خلاف ہے۔

مرقات میں ہے:

عن أنس رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه و سلم رأى على عبد الرحمن بن عوف أثر صفرة فقال ما هذا؟ قال إني تزوجت امرأة على وزن نواة من ذهب قال بارك الله لك أولم و لو بشاة.

قال القاري تحت قوله (أولم و لو بشاة) أي اتخذ وليمة قال ابن ملك تمسك بظاهره من ذهب إلى إيجابها و الأكثرون على أن الأمر للندب، قيل إنها بعد الدخول و قيل عند العقد و قيل عندهما. (6/ 366)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

و وليمة العرس سنة و فيها مثوبة عظيمة و هي إذا بنى الرجل بامرأته. (5/ 343)

بذل المجہود میں ہے:

و اختلف السلف في وقتها هل هو عند العقد أو عقبه أو عند الدخول أو عقبه أو من يوسع ابتداء العقد إلى انتهاء الدخول على أقوال، قال السبكي و المنقول من فعل النبي صلى الله عليه و سلم أنها بعد الدخول و في حديث أنس عند البخاري وغيره التصريح بأنها بعد الدخول لقوله أصبح عروساً بزينب فدعا القوم. (10/ 128)

اوجز المسالک میں ہے:

و في المحلى اختلفوا في وقت الوليمة أ هو قبل الدخول أو بعده فحكى عياض أن الأصح عند المالكية بعد الدخول قال الشيخ الخليل هو ظاهر المذهب و قد استحبها بعض الشيوخ قبل البناء و قال اللخمي و اسع قبله و بعده و قال ابن يونس يستحب عند النكاح و عند البناء و صرح الماوردي بأنها عند البناء و قال ابن ملقن لم يتعرض الأصحاب لوقتها و في سنن البيهقي ما يقتضي أنها قبل الدخول لا بعده. و قال الدردير الوليمة و هي طعام العرس خاصة مندوبة بعد البناء فإن وقعت قبله لم تكن وليمة شرعاً و المعتمد أن كونها بعد البناء مندوب ثان فإن فعلت قبل أجزأت. (9/ 522) .

…………. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved