• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وقف کی گئی زمین کو اپنے استعمال میں لانا

استفتاء

ایک کنال رقبہ مسجد کےلیے وقف کردیا ،ابھی مسجد شروع کرتے کرتے شاید چندماہ لگ جائیں ،کیوں کہ تعمیر کےلیے میٹریل وغیرہ خریدنے کے لیے رقم کا بندوبست کرکے شروع کرنے کا پروگرام ہے ۔پوچھنا  یہ چاہتے ہیں کہ اس دوران اس زمین میں فصل وغیرہ کاشت کر سکتا ہوں مطلب یہ کہ جب تک مسجد نہیں بنتی  ،کیا مسجد کے لیے جگہ دینے والا اس زمین میں فصل وغیرہ کاشت کرکے دانے چارہ وغیرہ اپنے استعمال میں لاسکتاہے؟

وضاحت مطلوب ہے : (1) یہ ایک کنال کا پلاٹ پہلے سے کسی بنی ہوئی مسجدکے  نام پر وقف کیا  ہے یا   وہا ں نئی  مسجد بنانی ہے؟(2) اس  جگہ میں  نماز باجماعت ہوئی ہے یا نہیں؟(3)کیا  اس مسجد کا کوئی متولی مقرر کیا گیا ہے؟ اگر کیا گیا ہے تو کیا یہ جگہ متولی کے سپرد کر دی تھی ؟

جواب وضاحت: (1) اس جگہ میں نئی  مسجد بنانی ہے ۔(2)اس  جگہ میں  ابھی نمازیں شروع نہیں ہوئی۔(3)مسجد کا متولی ابھی مقرر نہیں ہوا تھا اس لیے ابھی جگہ کسی کے سپرد نہیں کی تھی ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک محض زبان سے  زمین وقف کردینے  سے  مسجد کا وقف تام نہیں ہوتا اور نہ ہی زمین مالک کی ملکیت سے نکلتی ہے بلکہ مسجد کا وقف تام ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہاں باجماعت نماز ادا کرلی جائے۔مذکورہ صورت میں چونکہ  اس جگہ میں نمازِ باجماعت ادا نہیں کی گئی لہٰذا  جب تک مسجد کی تعمیر شروع نہیں ہوتی آپ کے لیے اس زمین میں فصل کاشت کرنے کی  گنجائش ہے ۔

فتاوی عالمگیری(408/2)میں ہے :من بنى مسجدا لم يزل ملكه عنه حتى يفرزه عن ملكه بطريقه ويأذن بالصلاة أما الإفراز فلأنه لا يخلص لله تعالى إلا به كذا في الهداية فلو جعل وسط داره مسجدا وأذن للناس في الدخول والصلاة فيه  إن شرط معه الطريق صار مسجدافي قولهم وإلا فلا عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى وقالا يصير مسجدا وتصير الطريق من حقه من غير شرط .فتاوی شامی (547/6) میں ہے : قوله ( بجماعة ) لأنه لا بد من التسليم عندهما خلافا لأبي يوسف وتسليم كل شيء بحسبه ففي المقبرة  بدفن واحدوفي السقاية بشربه وفي الخان بنزوله كما في الإسعاف واشتراط الجماعة لأنها المقصودة من المسجد ولذا شرط أن تكون جهرا بأذان وإقامة وإلا لم يصر مسجدا  قال الزيلعي وهذه الرواية هي الصحيحة وقال في الفتح ولو اتحد الإمام والمؤذن وصلى فيه وحده صار مسجدا بالاتفاق لأن الأداء على هذا الوجه كالجماعة قال في النهر وإذ قد عرفت أن الصلاة فيه أقيمت مقام التسليم علمت أنه بالتسليم إلى المتولي يكون مسجدا دونها أي دون الصلاة وهذا هو الأصح كما في الزيلعي وغيره وفي الفتح وهو الأوجه لأن بالتسليم إليه يحصل تمام التسليم إليه تعالى وكذالو سلمه إلى القاضي أو نائبه كما في الإسعاف وقيل لاواختاره السرخسي  . مسائل بہشتی زیور(187/2)میں ہے :مسجد میں وقف اس سے لازم ہوتا ہے کہ مسجد ہر اعتبار سے مالک کی ملکیت سے نکل جائے اور واقف کی اجازت کے بعد اس میں اذان واقامت کے ساتھ باجماعت نماز پڑھی جائے اگرچہ ایک آدمی ہو جس نے اذان کہی اور امامت بھی اس نے کرائی کوئی اور نہ آیا تو اس کی تنہا ادائیگی جماعت کی مثل ہوگی ۔

مسجد کے علاوہ وقف میں صرف یہ کہنے سے کہ یہ جگہ وقف ہے وقف لازم ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved