• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

وقف کی عمارت سو سال لیز پر دینا

استفتاء

1۔ ہمارے والد صاحب دام ظلہ نےچند سال قبل ساری جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم فرمادی اس میں سے ایک مکان مختلف دینی خدمات کے لیے وقف کیا، خیال تھا کہ محلے کی بچیاں بنیادی تعلیم حاصل کریں گے، مستورات کی جماعت ٹھہر جائے گی، اسی طرح محلے میں مسجد دوسرے مسلک کی تھی تو یہاں اپنی جماعت کروالیں گے وغیرہ پھر اس مکان کا متولی ہمارے بھائی جن کو( جو کہ یہاں کے ممتاز عالم دین ہیں) بتایا گیا مگر باوجود کو شش وا نتظامات کے کوئی بھی مذکورہ بالا دینی کام یہاں نہیں ہو رہا ۔ کیونکہ مذکورہ  مکان ایسی جگہ واقع ہے جہاں آبادی گنجان ہے، گلیاں تنگ ہیں اور آس پاس کی آبادی دوسرے مسلک سے تعلق رکھتی ہے، شروع میں یہاں بچیوں کا غیر رہائشی مدرسہ شروع کیا گیا لیکن چونکہ عمارت بہت بڑی تھی اور بچیاں بہت تھوڑی تھیں۔ اس لیے وہ متصل ہمارے گھر میں پڑھتی رہیں۔ اسی طرح عورتوں کی جماعت بھی مذکورہ عمارت میں ٹھہرانے کی سبیل کی گئی لیکن عملاً وہ بھی ہمارے گھر میں ٹھہرتی ہیں۔

ایک قاری صاحب کو بھی بچوں کو پڑھانے کے لیے رکھا گیا، لیکن صرف اپنے گھر کے یہی دس بارہ بچے پڑھتے رہے۔ اگر بچوں کا رہائشی مدرسہ وہاں شروع کیا جائے تو ایسی صورت میں اہل علاقہ کی مخالفت اور قانونی رکاوٹوں ( عدالتی کیس ) وغیرہ کا قوی اندیشہ ہے جن سے نمٹنا منتظمین کے بس میں نہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ عمارت میں فی الحال عمارت کے مناسب کوئی کام ممکن نہیں ، لیکن چونکہ عمارت بہت بڑی ہے اور وقف ایسے بے کار رہے یہ بھی مناسب معلوم نہیں ہوتا اس لیے سوچ یہ تھی کہ اگر شریعت میں گنجائش ہو تو اس کو فروخت کر کے اس کی بجائے کسی دوسری جگہ عمارت لے لی جائے جہاں وہ بآسانی چل سکے۔ یا اسے حکومت کو یا کسی دوسرے ادارے کو کرایہ پر دیدیا جائے اور کرایہ کو کسی اور مسجد مدرسے یا خیر کے مصرف میں خرچ کر دیا جائے؟

کیا ان باتوں کی شریعت کی روسے گنجائش ہے؟

وضاحت: واقف نے وقف کرتے وقت تبدیل وغیرہ کسی قسم کی کوئی شرط نہیں لگائی تھی۔

2۔ اسی طرح یہاں مضافات میں ایک اور زمین وقف کی ہے۔ مختلف حضرات نے اس کو دینی امور میں  استعمال کرنے کی کوشش کی مگر اس دیہات کے حضرات متفق نہ ہوسکے، البتہ اب اس دیہات اور وقف والوں نے بالاتفاق ہمارے بھائی جان کو متولی بنایا اور اختیار کلی دیدیا  ہے کہ سوائے فروخت کے ہر طرح سے تصرف کر سکتے ہیں؟

اس جگہ کو کرایہ پر دینے کی اجازت ہے؟

وضاحت مطلوب ہے: آپ کے بھائی جان اس جگہ کو کرایہ پر کیوں دینا چاہتے ہیں؟ وقف کے مطابق کیوں نہیں چلاتے؟

وقف نامہ کی کاپی مہیا کریں؟

سوال نمبر1 کی مزید وضاحت: سائل نے اس سوال پر کہ وہ بچیوں کی تعلیم اور جماعتوں کے ٹھہرانے کا سلسلہ گھر سے وقف عمارت میں کیوں منتقل نہیں کردیتا؟ ٹیلی فون پر بتایا کہ اس کے پیش نظر دو وجوہات ہیں:

۱۔متولی واقف کا بیٹا ہے اور کروڑوں کی لاگت سے تیار شدہ بڑی عمارت میں چھوٹا ساکام اسے سمجھ نہیں آتا۔ لہذا  وہ چاہتا ہے کہ یا جگہ تبدیل کر لی جائے یا حکومت  وغیرہ دیگر اداروں کو سو سال کے لیے لیز پر دی جائے تاکہ متولی کے تحت چلنے والے دیگر اداروں کی کفالت ہوسکے۔

۲۔اتنی بڑی عمارت میں چند بچیاں اور ایک استانی جانے سے گھبراتے ہیں۔

سائل نے ٹیلی فون پر مزید سوال یہ پوچھا کہ حال میں ایک دیندار پارٹی نے عمارت کرایہ پر لینے کے لیے رابطہ کیا ہے جو ایک کمرہ یا چھوٹا ہال بچیوں کی تعلیم کے لیے چھوڑ کر باقی جگہ تین سال کے لیے کرایہ پر لیناچاہتی ہے۔ تو کیاا س پارٹی سے معاہدہ جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آخری صورت یعنی تین سال کے لیے بلڈنگ کرایہ پر دےد یں اور کچھ حصہ مدرسہ کے لیے رکھ کر وہاں تعلیم دلوائیں۔ پھر تین سال کے حالات کا نئے سرے سے جائزہ لیکر فیصلہ کریں۔

حکومت کو یا کسی بھی کرایہ دار کو سو سال کے لیے لیز پر دینا درست نہیں ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved