• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وقف کو بیچنا

استفتاء

ایک قطعہ اراضی کوئی شخص خرید کر فلاحی کام کے لیے وقف کرتا ہے۔ اور قطعہ اراضی پر خریدار کی مرضی سے مسجد و مکتب قائم ہوجاتا ہے۔ عرصہ دراز تقریباً بارہ سال بعد خریدار مالی مشکلات سے دو چار ہوجاتا ہے اور خریدار کی ملکیت میں اس وقف شدہ املاک کے علاوہ ایک عالیشان گھر ، گاڑیاں اور کروڑوں روپے کی دیگر جائیداد  بھی ہے۔ اب وہ مالی مشکلات سے نکلنے کے لیے اس وقف شدہ قطعہ اراضی جس پر باقاعدہ طور پر ایک مسجد اور مدرسہ قائم ہے جس میں غریب طلباء قرآن کریم حفظ کرتے ہیں اور اس مدرسے سے اندازاً ساٹھ کے قریب بچے حفظ مکمل کر چکے ہیں کو بیچنا چاہتا ہے۔ شریعت کی روشنی میں تفصیل سے رہنمائی فرمائیں کہ کیا کوئی شخص وقف شدہ املاک اپنی ذاتی ضرورت کی خاطر بیچ سکتا ہے؟

نوٹ: مذکورہ بالا مسئلہ *** کے*** میں واقع مدرستہ البنات کا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

چونکہ*** کے منسلکہ دونوں پرچوں پر دستخط ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تحریر شدہ بیان سے متفق ہیں یعنی یہ کہ انہوں نے جگہ وقف کی تھی اور وقف سے جو مقصود تھا وہ مناسب طریقے سے پورا ہو رہا تھا۔ وقف کا نہ کوئی مالک بن سکتا ہے اور نہ کسی کو مالک بناسکتا ہے۔ اس لیے وقف مذکور کی بیع جائز نہیں ہے۔ بیع کالعدم ہے۔ مالکانہ طور پر کسی اور مدرسہ والوں ک فروخت کرنا بھی درست نہیں ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved