• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وقف کو موت کے معلق کرنا

استفتاء

ایک شادی شدہ اور صاحب اولاد عورت کا انتقال ہو گیا۔ اس عورت کے والدین، شوہر اور اس کا اکلوتا لڑکا اس کی زندگی میں فوت ہو گئے تھے۔ لڑکا شادی شدہ تھا، لیکن اولاد سے محروم رہا۔ اس عورت کا بھائی تھا جو کہ اس کی  موت کے بعد جائیداد کا وارث بنا۔ عورت نے اپنی زندگی میں جبکہ وہ ذہنی طور پر تندرست تھی اور ہوش و حواس بھی ٹھیک تھے، اپنے بھائی کو کہا کہ اس کی تمام جائیداد گاؤں کی مسجد کے نام کر دی جائے۔ وہ خود ایسا نہیں کرسکتی تھی، ان پڑھ اور سادہ لوح ہونے کی وجہ سے ۔ اس عورت نے اپنے بھائی کو یہ بھی کہا کہ وہ جائیداد کسی کےنام کرنا نہیں چاہتی، بلکہ صرف اور صرف مسجد کے نام کرنا چاہتی  ہوں۔ بھائی نے اپنی بہن سے وعدہ کیا کہ ایسا ہی  کیا جائیگا۔ لیکن تمہاری موت کے بعد ساری جائیداد مسجد کے نام کرادی جائیگی۔

اب اس عورت کا انتقال ہوگیا  اور تقریباً 49 کنال زرعی زمین اس کے بھائی کے نام  ہوگئی ۔ آپ براہ مہربانی  قران و سنت کی روشنی میں وضاحت کردیں کہ کیا بھائی اس بات کا پابند ہے کہ بہن سے کیا ہوا وعدہ پورا کرے اور ساری جائیداد گاؤں کی مسجد کے نام کرا دے یا وہ جائیداد زرعی زمین فروخت کرکے کل رقم گاؤں کی مسجد کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دے یا کسی اور مسجد، مدرسہ، ہسپتال کے اکاؤنٹ میں جمع کرا سکتا ہے؟ وہ اس لیے کہ گاؤں کے کچھ لوگ زمین خریدنا چاہتے ہیں۔ مہربانی ہوگی۔

نوٹ: مذکورہ جائیداد گاؤں کی مسجد کی  ضروریات سے بہت زیادہ ہے، اور گاؤں کی مسجد کی ضرورتیں پہلے پوری ہو رہی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں کل جائیداد کا ایک تہائی حصہ مسجد کے نام کرنا لازم ہے۔ لیکن چونکہ وعدہ پورا  کرنا بھی ضروری ہے ( و أوفوا بالعهد ) اس لیے پوری جائیداد مسجد کے  نام کر دینا بہتر ہے۔ لیکن مذکورہ جائیداد چونکہ گاؤں کی مسجد کی ضروریات سے زائد ہے اور آئندہ بھی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے  مذکورہ جائیداد کو کسی دوسری مسجد کے نام کرنا یافروخت کرکے اس کی قیمت کسی دوسری مسجد میں استعمال کرنا درست ہے۔ البتہ کسی ہسپتال یا رفاہی کام میں دینا جائز نہیں۔

و في الدر المختار: أو بالموت إذا علق به …… فالصحيح أنه كو صية تلزم من الثلث. و في ردالمحتار و محصل هذا أن المعلق بالموت لا يكون وقفاً في الصحيح فلا يزول به الملك قبل الموت ولا بعده بل يكون وصية لازمة بعده حتى لا يجوز التصرف به لاقبله(6/529)

و الذي ينبغي متابعة المشائخ المذكورين في جواز النقل بلا فرق بين مسجد أو حوض كما أفتى به الإمام أبو شجاع و الإمام الحلواني و كفى بهما قدوة. (6/ 552 )

أما المال الموقوف على المسجد الجامع إن لم يكن للمسجد حاجة للحال فللقاضي أن يصرف في ذلك لكن على وجه القرض فيكون دينا في مال الفيء. (هندية)

اس عبارت سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اگر مسجد کو فی الحال ضرورت نہ ہو لیکن آئندہ ضرورت پڑنے کا امکان ہو تو پھر قاضی اس مال کو بطور قرض دیگر مساجد پر خرچ کر سکتا ہے۔ اور اگر مسجد کو نہ فی الحال ضرورت ہو اور آئندہ بھی ضرورت نہیں تو پھر قاضی اس مال کو مطلقاً خرچ کر سکتا ہے۔ کذا فی کفایت المفتی، 7/ 248)

و ظاهره أنه لا يجوز صرف وقف مسجد خرب إلى حوض  و عكسه و في شرح الملتقى يصرف وقفها لأقرب مجانس بها. ( شامی، 6/ 551 )۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved