• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وقف قرآن کا ذاتی ملکیت میں لینا دینا

استفتاء

ایک متولی مسجد نے ایک مدرسہ کے طالب علم کو قرآن پاک دیا حفظ قرآن پاک کے لیے، جو کہ مسجد کے لیے وقف شدہ تھا

بطور ایصال ثواب۔ جس پر اس نے قرآن پاک حفظ کیا، بعد ازاں اس قرآن پاک کو اپنی ملکیت میں ہی رکھ لیا اور تا حال رکھا ہوا ہے۔ آیا اس طرح قرآن پاک اپنی ملکیت میں رکھنا ٹھیک ہے؟ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ بارہ سال کے عرصہ دراز کی وابستگی نے اس نسخہ قرآن سے انس پیدا کر دیا ہے، جس کی وجہ سے اس کو چھوڑنا نہیں چاہتا، اگر یوں رکھنا درست نہیں تو کیا اس کی قیمت جو بنتی ہے مسجد میں جمع کرانا تاکہ ایصال ثواب کے لیے دینے والے  کے لیے کافی ہو جائے، درست ہے؟

نیز یہ کہ جو قرآن پاک ایصالِ ثواب کے لیے مدرسہ میں دیے جائیں وہ تقسیم اسناد و دستار بندی کے وقت یا یوں ہی کسی مدرسے کے طلبہ کو ان کی ملکیت میں دینا درست ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مسجد کو وقف شدہ قرآن کا اپنی ذاتی ملکیت میں لینا یا دینا جائز نہیں، البتہ مسجد کی ضرورت سے زائد قرآن ہونے کی صورت میں دوسری مساجد یا مدارس یا پڑھنے کے لیے کسی شخص کو قرآن دیا جا سکتا ہے۔

توجیہ: کفایت المفتی میں حضرت مفتی کفایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"زائد قرآن مجیدوں کو دوسری مساجد اور مدرسوں میں پڑھنے کے لیے دے دیا جائے، کیونکہ ان وقف کرنے والوں کی غرض یہی ہے کہ ان قرآن مجیدوں میں تلاوت کی جائے۔” (7/ 257)

في الشامية: وقف مصحفاً علی أهل مسجد للقراءة أن يحصون جاز و إن وقف علی المسجد جاز و يقرأ فيه و لا يكون محصوراً علی هذا المسجد و به عرف نقل كتب الأوقاف من محالها للانتفاع بها. (6/ 460)

لكن في القنية: سبّل مصحفاً في مسجد بعينه للقراءة ليس له بعد ذلك أن يدفعه إلی آخر من غير أهل تلك المحلة للقراءة. (رد المحتار: 6/ 560)

قال الرافعي: فيه أنه لا معنی لجعل المسجد موقوفاً عليه …. و الظاهر أن المراد وقف علی أهل المسجد. (رد المحتار: 6/ 560)

و في القهستاني: صح وقف منقول فيه تعامل كالمصحف الموقوف علي المسجد و يقرأ فيه و في غيره. (رد المحتار: 6/ 560)

لو وقف المصحف علی المسجد …. فيجوز نقله إلی غيره. (رد المحتار: 6/ 561)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved