• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

وقف تام ہو جانے کے بعد مسجد کی زمین بیچنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی جو کہ منہدم ہو چکی تھی، میں نے ارادہ کیا کہ اس مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا جائے، اس بارے میں میں نے چند ساتھیوں سے مشورہ کیا، مشورے میں یہ بات طے ہوئی کہ مسجد کے ساتھ جو خالی جگہ پڑی ہوئی ہے اس کو بھی شامل کیا جائے اور اس مسجد کو جامع مسجد بنایا جائے، وہ چند لوگوں کی مشترکہ جگہ تھی، میں نے زمین کے مالکان سے بات کی کہ مسجد کی توسیع کے لیے آپ کی زمین چاہیے تو انہوں نے کہا کہ ہم سب نے یہ مشترکہ زمین مسجد کے لیے وقف کر دی۔ اس کے بعد مسجد کی تعمیر کے لیے میں نے ایک شخص سے بات کی تو اس نے کہا کہ میں پیسے دیتا ہوں لیکن میرے پیسوں سے مسجد کے لیے زمین خریدنی ہے، یعنی جو زمین ساتھی وقف کر چکے ہیں اس کی قیمت ان کو ادا کر دو، پھر ان کی طرف سے وہ پیسے تعمیر میں خرچ کرو،  وہ شخص چاہتا ہے کہ زمین اس کے پیسوں سے خریدی جائے۔ کیا مذکورہ صورت میں مسجد کے لیے وقف شدہ زمین کو خریدا جا سکتا ہے؟ جبکہ وقف شدہ زمین پر مسجد کا کچھ حصہ تعمیر  ہو چکا ہے اور باجماعت نماز بھی شروع ہو چکی ہے، نیز زمین کے مالکان اس بات پر راضی ہیں کہ ان کی زمین کی قیمت  بقیہ تعمیر میں خرچ کر دی جائے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ  وقف شدہ زمین مسجد کے لیے وقف ہو چکی ہے، اور اس پر مسجد بھی تعمیر  ہو چکی ہے اور باجماعت نماز بھی شروع ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے یہ جگہ شرعی مسجد بن گئی ہے، اور وقف کرنے والوں کی ملکیت سے نکل گئی ہے لہذا اس جگہ کی خرید و فروخت کرنا اور  وقف کرنے والوں کے لیے اس جگہ کی قیمت وصول کرنا جائز نہیں، چاہے وہ قیمت وصول کرنے کے بعد اسی مسجد کی تعمیر پر ہی کیوں نہ خرچ کی جائے۔

درمختار مع رد المحتار(6/546) میں ہے:(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام ( الصلاة فيه) بجماعة وقيل : يكفي واحد وجعله في الخانية ظاهر الرواية.(قوله : ويزول ملكه عن المسجد إلخ) اعلم أن المسجد يخالف سائر الأوقاف في عدم اشتراط التسليم إلى المتولي عند محمد وفي منع الشيوع عند أبي يوسف ، وفي خروجه عن ملك الواقف عند الإمام وإن لم يحكم به حاكم كما في الدرر وغيره……. (قوله بالفعل) أي بالصلاة فيه ففي شرح الملتقى إنه يصير مسجدا بلا خلاف، ثم قال عند قول الملتقى، وعند أبي يوسف يزول بمجرد القول ولم يرد أنه لا يزول بدونه لما عرفت أنه يزول بالفعل أيضا بلا خلاف اھ. قلت: وفي الذخيرة وبالصلاة بجماعة يقع التسليم بلا خلاف، حتى إنه إذا بنى مسجدا وأذن للناس بالصلاة فيه جماعة فإنه يصير مسجدا اھ ……….(قوله : بجماعة) لأنه لا بد من التسليم عندهما خلافا لأبي يوسف ، وتسليم كل شيء بحسبه ، ففي المقبرة بدفن واحد وفي السقاية بشربه وفي الخان بنزوله كما في الإسعاف ، واشتراط الجماعة لأنها المقصودة من المسجد ، ولذا شرط أن تكون جهرا بأذان وإقامة وإلا لم يصر مسجدا قال الزيلعي : وهذه الرواية الصحيحة وقال في الفتح : ولو اتحد الإمام والمؤذن وصلى فيه وحده صار مسجدا بالاتفاق لأن الأداء على هذا الوجه كالجماعة ، قال في النهر : وإذ قد عرفت أن الصلاة فيه أقيمت مقام التسليم ، علمت أنه بالتسليم إلى المتولي يكون مسجدا دونها : أي دون الصلاة ، وهذا هو الأصح كما في الزيلعي وغيره وفي الفتح وهو الأوجه لأن بالتسليم إليه يحصل تمام التسليم إليه تعالى ، وكذا لو سلمه إلى القاضي أو نائبه كما في الإسعاف وقيل لا واختاره السرخسي . قوله: (وقيل يكفي واحد) لكن لو صلى الواقف وحده فالصحيح أنه لا يكفي لأن الصلاة إنما تشترط لأجل القبض للعامة وقبضه لنفسه لا يكفي فكذا صلاته  فتح وإسعافدرمختار مع ردالمحتار (546/6) میں ہے:فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك(قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved